بلاگ

چین میں بوڑھے والدین کی نافرمان اولاد

چین میں بوڑھے والدین کی نافرمان اولاد کو سبق سکھانے کیلئے انتہائی حیران کن منصوبہ بنالیا ہے جس کے تحت ایسے لوگوں کی پہلے مرحلے میں بڑے بڑے بل بورڈ ز پرتصاویر لگائی جائیں گی اور دوسرے مرحلے میں لاؤڈ سپیکرز پر ان کے جرائم کی تفصیلات سے آگاہ کیا جائے گا،  چار دہائیوں تک ایک بچہ پالیسی نافذ رہنے کی وجہ سے کام کاج کے قابل افراد کی تعداد گھٹ رہی ہے ، کئی دہائیوں کے معاشی ترقی کے بعد آج نئی نسل والدین کی خدمت کی بجائے کیریئر بنانے کو ترجیح دے رہے ہیں اور حکومت کو تشویش ہے کہ ملک میں بوڑھوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کا خیال کون رکھے گا۔

چین میں والدین کی خدمت کو بہت زیادہ نیک کام سمجھا جاتا ہے مگر کئی دہائیوں تک نفسا نفسی اور معاشی ترقی کے بعد آج چین کی نئی نسل اپنے والدین کی خدمت کی بجائے کیریر بنانے کو ترجیح دے رہی ہے۔اس گاﺅں کا نام ہوانگ فینگ ہے جو چین کے جنوب مغربی سیچوان صوبہ میں واقع ہے۔ گاﺅں کے بڑوں نے جوان اولاد کو اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کی سنجیدگی سے ادائیگی پر مجبور کرنے کے لیے یہ قواعد و ضوابط نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت نافرمان اولاد کو سرعام ذلیل کیا جائے گا۔مقامی پارٹی دیہہ سیکرٹری اور گاﺅں کے سرپنچ ڑانگ یپنگ نے کہا کہ ”چین میں والدین کی خدمت افضل ترین عمل ہے اور ساتھ ہی چینی باشندےساکھ خراب ہونے کو بھی بہت برا سمجھتے ہیں، لہذا ان کے برے رویے کو سب کے سامنے لاکر انہیں شرم دلائی جائے گی اور اپنی عادتیں بدلنے پر مجبور کیا جائے گا۔ڑانگ یپنگ نے کہا کہ گاﺅں کے معززین نافرمان اور ناخلف اولادوں سے پہلے بات کرکے انہیں سمجھانے کی کوشش کریں گے کہ وہ اپنے والدین کی اچھی طرح خدمت کریںلیکن اگر انہوں نے اپنا رویہ نہ بدلا اور رشتے داروں سے برا سلوک جاری رکھا تو گاﺅں میں ان کی تصویر، نام اور تفصیلات بڑے سے بل بورڈ پر لگادی جائیں گی۔گاﺅں والے اگلے سال سے اس مہم میں ایک اور مرحلے کا اضافہ کردیں گے جس پر روشنی ڈالتے ہوئے ڑانگ یپنگ نے بتایا کہ جو لوگ اپنے والدین کے فرائض پورے نہیں کریں گے، ہم جنوری سے ان کے بارے میں باقاعدہ لاﺅڈ سپیکروں پر اعلانات کرکے انہیں سب کے سامنے شرمسار کریں گے۔

 

انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ ان قواعد و ضوابط سے لوگوں کی نجی زندگی کے احترام کی خلاف ورزی ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان قوانین کو ہمارے نمائندوں پر مشتمل دیہہ کمیٹی نے منظور کیا ہے اس لیے یہ مکمل طور پر قانونی ہیں۔چین کا شمار ان چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں ایسے قوانین نافذ ہیں جن کے تحت والدین اپنے بالغ بچوں سے اپنی خدمت کرواسکتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق ایک ہزار سے زیادہ بوڑھے چینیوںنے اپنے بچوں سے اخراجات کے حصول کے لیے عدالت سے رجوع کیا ہے۔اس سال کے شروع میں چین کے تجارتی مرکز شنگھائی نے بھی قوانین متعارف کرائے تھے جن کے تحت علیحدہ رہنے والے بچوں پر وقتا فوقتا اپنے والدین سے ملنے جانے یا انہیں نیک خواہشات کے کارڈز بھیجنے کے لیے زور دیا گیا تھا، جس کی پابندی نہ کرنے کی صورت میں معاشرے میں ان کے مقام و مرتبے کو گھٹا دیا جائے گا۔

والدین کی خدمت کی حوصلہ افزائی کے لیے اس عمل کو باقاعدہ قومی پالیسی میں شامل کیا گیا ہے، جو اس بات کا اہم اشارہ ہے کہ بیجنگ اس مسئلے پر کتنا زیادہ تشویش کا شکار ہے کہ ملک میں بوڑھے افراد کی بڑھتی ہوئی آبادی کا خیال کون رکھے گا۔چین میں چار دہائیوں تک ایک بچہ پالیسی کا کالا قانون نافذ رہا ہے، جس کا نتیجہ آج یہ برآمد ہوا ہے کہ کام کاج کرنے کے قابل افراد کی تعداد گھٹ رہی ہے اور آبادی تیزی سے بڑھاپے کی طرف جارہی ہے۔اقوام متحدہ کے تخمینوں کے مطابق 2050 تک چین کی 30 فیصد آبادی 60 سال یا سے زیادہ عمر کے افراد پر مشتمل ہوگی جب کہ پوری دنیا میں بوڑھوں کی آبادی 20 فیصد ہوگی۔ چین میں 2000 میں آبادی میں بوڑھے افراد کی تعداد 10 فیصد تھی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close