کم سن بھکاریوں پر ایک تحریر
لاہور سے گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے آئی بھتیجیوں کو جڑواں شہروں کی سیر کروانا ہمارے فرائضِ منصبی میں شامل رہا۔آٹھ روز میں ٹورسٹ گائیڈ اور ڈرائیور بننے کے دوران ہر عوامی و تفریحی مقام گھومتے مسلسل دل و دماغ میں چھوٹے چھوٹے دھماکے ہوتے رہے۔اور ابھی کچھ فرصت ملی ہے تو معذرت کہ راولپنڈی اسلام آباد کے کسی مقام کی خوبصورت یادیں تحریر کرنے کی بجائے بحثیت مجموعی معاشرے کے نظام میں دعووں کے پول کھولتی مکروہ تصویر دکھانا چاہوںگا
آغاز کیے لیتے ہیں نیچرل ہسٹری میوزیم سے جس کے اندر اور باہر سکوت کے باعث کوئی چھابڑی تو کیا بھکاری تک دکھائی نہیں دیتا۔جب رواج ہی نہیں ایسی جگہوں پر جانے کا تو کسی کو کیا پڑی ہے دھندے میں مندا سہے۔جبکہ چند ہی گز کے فاصلے پر لوک ورثہ ہے اور آگے پاکستان مونومنٹ۔پارکنگ سے لے کر اندر سنگی بینچوں اور گھاس کے پلاٹس تک بھکارنوں کا عجب رش ہے۔سب نے گود میں ازلی نیند کا مارا بچہ اٹھا رکھا ہے۔جو گزشتہ کئی برسوں میں اتنے کا اتنا ہی ہے۔ہر عورت کے ماتحت دو چار برہنہ پاء بچے ہیں۔ان مقامات پر انٹری فیس ہے لیکن پھر بھی گزشتہ کئی برس سے یہ لوگ انہی جگہوں پر ڈیرے ڈالے پڑے ہیں۔دامن کوہ سے مونال یا پیر سوہاوہ تک ہو آیے حالات اس سے بھی بدتر ہیں۔۔۔سینٹورس جیسے شاپنگ مال میں چلے جایے تو وہاں ایک نیا سلسلہ چل رہا ہے "میڈم ہم نے کھانا آرڈر کیا تھا لیکن سو روپیہ کم پڑ رہا ہے۔پلیز ھیلپ۔” زمانہ ترقی کرگیا ہے تو بھیک مانگنے کا طریقہ بھی ماڈرن ہونا چاہیے۔کسی سگنل پر رکیں تو نقاب پوش مجبوریاں اور معذور یا ننگے پاؤں گھومتا نام نہاد مستقبل ۔ اس ضمن میں مرغزار چڑیا گھر ، لیک ویو پارک اور ایوب نیشنل پارک بازی لے جا چکے ہیں۔یہاں سیاحوں کی تعداد اب جوان بھکارنوں اور بچوں کی تعداد کے راست متناسب ہوتی ہے۔جبکہ داخلہ ٹکٹ لازم ہے۔انتظامیہ یا کہیے عملہ منہ میں وہسل دبائے وہیں گھومتا رہتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ نگرانی جاری ہے۔
یہ تو صرف چند تفریحی مقامات ہیں آپ کسی بازار میں چلے جائیں تو ہر طرح کی مجبوری بِکنے کو تیار کھڑی ہے یا معصومیت کاسہ اٹھائے سوال کرتی ہے "کھانا نہیں کھایا ۔۔۔ اسکول شوز اور یونیفارم خریدنا ہے۔کتابیں لینی ہیں۔یہ ڈرائینگ بُکس خرید لیں۔۔۔۔” اور جب ان سے سکول کا اتہ پتہ پوچھو یا وقت تو چند سیکنڈز میں چیل کی مانند کوئی بڑا بھکاری آگے بڑھ کر آپ کا دھیان بٹا لے گا۔ایسا ہر بار ہوتا ہے۔
سلسلہ یہیں تھم نہیں جاتا۔کسی شہر میں کوئی مزار بتا دیجیے جہاں حکومتی دعووں کے برعکس تصویر دکھائی نہ دے۔لائلپور میں نور شاہ ولی کا مزار ہو یا لسوڑی شاہ ، لاہور میں بی۔بی پاکدامن،میاں میر ، شاہ جمال ، داتا علی ہجویری ، پاکپتن میں بابا فرید ، جھنگ میں سلطان باہو ، گولڑہ شریف، ملتان میں حافظ جمال ، بہاؤالدین زکریا اور شاہ رکن عالم ، سیہون شریف میں شہباز قلندر ، اسلام آباد میں بری امام ۔۔۔ غرض ایک طویل ترین فہرست ہے ان بزرگانِ دین کی کہ جِن کی آخری آرام گاہوں کے احاطوں میں ایک طبقہ ریاست کا منہ چڑا رہا ہے۔سالانہ عرس کے نام پر بھری بوریاں اور روزانہ کی بنیاد پر نذرانوں سے اٹی تجوریاں۔۔۔یاد رہے کہ لنگر اور فیض ملنے کا سوال یہاں زیرِ بحث نہیں ہے۔۔۔ میں نے تو کوئی ایسی جگہ نہیں دیکھی جہاں چائلڈ پروٹیکشن بیورو یا پیشہ ور بھکاریوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا اثر دکھائی دیتا ہو۔یہ بچے کِس کے ہیں؟ کہاں سے لائے جا رہے ہیں؟ منہ ڈھاپے کون سے "باغیرت” خاندانوں کی یہ مائیں ،بہنیں اور بیٹیاں ہیں ؟ جو گود میں پڑا سردی گرمی اور بھوک پیاس سے بے نیاز اونگھتا معصوم ہے وہ کِس کا لختِ جگر ہے ؟ صرف بھیک ہی نہیں یہ معاشرہ اور کون سے گھناؤنے جرائم اور دیگر سرگرمیوں کی آجگاہیں بن چکا ہے کوئی فکر ہے کِسی کو؟
چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے چھاپے مارے جاتے ہیں۔اینٹوں کے بھٹوں ،ورکشاپ، فلنگ اسٹیشن سے تو بچوں کو اٹھا کر ماہانہ وظیفہ دیتے اسکول بھیج دیں گے لیکن کم سن بھکاری اور سال بھر کا معاوضہ ادا کرکے لائے گئے گھروں میں کام کرتے چھوٹے۔۔۔ان کی فکر کون کرے گا؟ سیکس ورکرز بنا اسی ملک کا مَسلا ہوا بیمار حال اور مستقبل کون اپنائے گا ؟ اے فار ایپل یا جیومیٹری و مسئلہ فیثاغورث سکھانے کی بجائے ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کے مطابق مثبت و تکنیکی مہارت سکھا کر کارآمد سماجی و معاشرتی رکن بننے کو کِس نے آگے بڑھنا ہے؟ سوالات کا لامتناہی سلسلہ ہے اور جواب شاید جانتے ہوئے بھی انجان بننے کی عادت اپنائی جا چکی ہے۔