محمود جو تھا اپنے بل بوتے پر بنا تھا
کوئٹہ میں آٹھ سال بحیثیت صحافی کام کرنے کے دوران میں نے کوئٹہ میں جو دوست بنائے ان میں سے بہت سے صحافی دوست بم دھماکوں میں کھو دیے اور کل ان میں مزید کئی ناموں کا اضافہ ہو گیا۔
اگر یہ کہوں کہ کوئٹہ اب نوجوان خوبصورت چہروں سے خالی ہوگیا تو شاید مبالغہ نہیں ہوگا۔
پیر کو سول ہسپتال میں ہونے والے بم دھماکے میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں سے متعدد کا میرا کہیں نہ کہیں سامنا ہوا تھا۔
لیکن ان میں کچھ ایسے نام ہیں جن کے بارے میں میں اب بھی تصور ہی نہیں کر سکتا کہ اُن سے اب کبھی ملاقات نہیں ہو سکتی۔
اب نوجوان وکیل باز محمد کاکڑ سے کبھی ملاقات نہیں ہو سکتی جو کہا کرتے تھے کہ ’میری زندگی کا مقصد غریبوں کی مدد کرنا ہے۔‘
اب وکیل غنی جان آغا سے کبھی ملاقات نہیں ہو سکتی جو سعید ہوٹل اور کبیر بیلڈنگ کی محفل سمیت کوئٹہ کے نوجوانوں کے ہر محفل میں ہنسی خوشی بکھیرنے والے تھے۔
اب اس نوجوان کیمرہ مین شہزاد خان سے بھی کبھی ملاقات نہیں ہو سکتی جو صحافیوں کے احتجاجی جلوسوں میں سب سے پرجوش انداز میں نعرے لگاتے تھے اور سب سے آگے ہوا کرتے تھے۔
لیکن سب سے بڑھ کر میں کیمرہ مین محمود ہمدرد جیسے ’سیلف میڈ‘ انسان کو اس لیے بھی نہیں بھول سکوں گا کیونکہ اس کے ہاتھ سے بنائے گئے چائے کے لاتعداد کپ پی چکا ہوں۔
محمود کو میں ’خوش اخلاق‘ کہہ کر پکارتا تھا نہ صرف میں بلکہ میرے بعد ڈان کے بیوروچیف نے بھی محمود کو اسی نام سے پکارنا شروع کیا۔
یہ غالباً چھ سال پہلے کی بات ہے جب ڈان نیوز کوئٹہ بیورو میں سکیورٹی پر مامور ایک ہنس مکھ نوجوان سے پہلی ملاقات ہوئی اور ایک ماہ پہلے تک ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔
مجھے یاد ہے کہ محمود ہمدرد نے بحیثیت سکیورٹی گارڈ سب سے پہلے یہ بات کی تھی کہ ’میں انگلش کیسے سیکھ سکتا ہوں‘۔
تب سے وہ اس کشمکش میں تھے کہ انھیں انگریزی سیکھنی ہے اور پھر انھوں نے خود ڈان کے بیوروچیف سے انگلش سیکھنی شروع کر دی۔
بعد میں یہ نوجوان گارڈ سے این ایل ای (ویڈیوایڈیٹر) بنے اور ان کے شوق اور کام سے محبت دیکھ کر ان کو پھر کیمرہ مین کی پوزیشن پر ترقی دی گئی ۔
25 سالہ محمود ہمدرد کے سر سے بچپن ہی میں باپ کا سایہ اُٹھ گیا تھا اور اُنھوں نے انتہائی کسمپرسی کے باوجود بی اے تک کی تعلیم حاصل کی۔
محمود اپنے خاندان میں پہلا اور واحد نوجوان تھا جنھوں نے عصری تعلیم حاصل کی تھی اور آج جو کچھ بھی تھا اپنے بل بوتے پر تھا۔
ان کی خواہش تھی کہ وہ اب ماس کمیونیکیشن میں داخلہ لیں اور پھر ایک رپورٹر کی حیثیت سے کام کریں لیکن!!!
میں صحرائے محبت کا مسافر تھا فرازایک جھونکا تھا کہ خوشبو کے سفر پر نکلا