کرکٹر عمران خان سے وزیراعظم عمران خان تک، کہنے کو یہ بائیس برس کا سیاسی سفر ہے، تاہم 25 اپریل 1996ء کو قائم ہونے اور 25 جولائی 2018ء کو منعقدہ عام انتخابات میں سب سے بڑی جماعت بن کر ابھرنے والی تحریک انصاف کے سربراہ کا کہنا ہے کہ یہ پانی پت کی لڑائی تھی۔ اس لڑائی کا پہلے دن سے احوال سن لیجئے۔ سن1997ء کے عام انتخابات میں عمران خان نے لاہور کے حلقہ این اے 94 اور میانوالی کے حلقہ این اے53سے انتخاب لڑا لیکن کسی بھی حلقے سے جیت نہ سکے۔ انتخابی نتائج کے مطابق ان کی جماعت نے ملک بھرمیں مجموعی طور پر314,820 ووٹ حاصل کئے۔
انتخابات2002ء میں عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے پاکستان کے متعدد حلقوں سے انتخاب لڑا ، عمران خان کا اندازہ تھا کہ ان کی جماعت انتخابات جیتنے کی صلاحیت نہیں رکھتی، تاہم اس قدر سیٹیں حاصل کرلے گی کہ کسی دوسری جماعت کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنانے میں ضرور کامیاب ہوجائے گی لیکن انتخابی نتائج سامنے آئے تو عمران خان کے علاوہ ، تحریک انصاف کا کوئی امیدوار کامیاب نہ ہوسکا۔ یوں تحریک انصاف ایک سیٹ کے ساتھ قومی اسمبلی میں داخل ہوگئی لیکن اس کے مجموعی ووٹ بنک میں خاصی کمی واقع ہوئی۔ انتخابی نتائج کے مطابق اسے پورے ملک میں صرف 137,383 ووٹ ملے۔
2008ء میں تحریک انصاف نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا البتہ 2013ء میں وہ ووٹوں کے اعتبار سے ملک کی دوسری اور اسمبلی میں نشستوں کی بنیاد پر تیسری بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ تحریک انصاف نے 76لاکھ 79ہزار954 ووٹ حاصل کئے تھے جبکہ پیپلزپارٹی نے 69 لاکھ11ہزار218 ووٹ حاصل کئے، تحریک انصاف کی قومی نشستیں 28جبکہ پیپلزپارٹی کی33 تھیں۔ ان انتخابات کے نتیجے میں صوبہ خیبرپختونخوا میں اکثریت حاصل کرنا عمران خان کی بڑی کامیابی تھی ۔ ان کی جماعت نے99کے ایوان میں 39نشتیں حاصل کیں اور جماعت اسلامی، قومی وطن پارٹی، کچھ آزاد امیدواروں کے ساتھ مل کر حکومت قائم کرلی۔
تیزی سے بڑھتی ہوئی عوامی حمایت کے پیش نظر عمران خان کو مکمل یقین تھا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی تیزی سے غیرمقبول ہورہی ہیں، وہ عوامی مقبولیت حاصل کرنے کے لئے خاطرخواہ اقدامات بھی نہیں کررہی ہیں ، اس لئے انھیں کوئی شک نہ رہا کہ وہ اگلے انتخابات ضرور جیتیں گے۔ اس کے لئے عمران خان نے دو نکات پر مشتمل حکمت عملی وضع کی۔
اولاً مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کو عوام کی نظروں سے گرانے کے لئے مختلف ایشوز پر آواز بلند کی جائے، گزشتہ پانچ برسوں کے دوران میں انھوں نے مسلم لیگ ن کی حکومت کو خصوصیت کے ساتھ اپنی تنقید کا نشانہ بنایا، اس پر الزام عائد کیا کہ وہ دھاندلی کی پیداوار ہے اور پھر اسے بدعنوان بھی قراردیا۔ اس کے لئے انھوں نے عوام کو سڑکوں پر نکالا، اسلام آباد کی راہ دکھائی اور وہاں یکے بعد دیگرے دھرنے دے کر مرکز اور بڑے صوبہ پنجاب کی حکمران جماعت کوشدیدمشکلات کا شکار کیا۔ ان کی حکمت عملی کا دوسرا نکتہ خیبر پختون خوا حکومت تھی کہ اسے اس اندازمیں چلایاجائے کہ عوام کی توجہ عام انتخابات 2018ء میں تحریک انصاف ہی کی طرف مبذول ہو۔
تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ اس کی خیبرپختونخوا حکومت نے متعدد کامیابیاں حاصل کیں ، مثلاً صوبے میں ایک بااختیار بلدیاتی نظام قائم کیا جس کی آزادحلقوں نے بھی تعریف کی کہ یہ نظام سب صوبوں میں سب سے بہترین ہے، صوبہ کے پرائمری سکولوں کے انفراسٹرکچر کی تعمیر اور اساتذہ کی بھرتی اور ٹریننگ میں تحریک انصاف کی حکومت باقی صوبائی حکومتوں کی نسبت آگے رہی۔ اسی طرح ’صحت سہولت پروگرام‘ کے تحت دیا جانے والے صحت کارڈز ایک بہترین اقدام تھا جس کے ذریعے صوبہ کے50 فیصد گھرانوں کو مفت بہترین علاج معالجہ کی سہولت ملی۔
تحریک انصاف کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس نے صوبہ خیبرپختون خوا میں پولیس کو مکمل غیرسیاسی بناکر آزاد، بااختیار اور عوام دوست بنایا۔’بلین ٹری سونامی پرجیکٹ‘ کے نام سے ایک ارب درخت لگانے کا منصوبہ مکمل کیا، اس پراجیکٹ کی ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ سمیت متعدد عالمی اداروں نے تصدیق اور تعریف کی کہ یہ ماحولیات کے تحفظ اور موسمی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کیلئے ایک انقلابی قدم تھا۔ ورلڈ اکانومک فورم نے اس پروگرام کو مثالی قرار دیا۔ اگرچہ تحریک انصاف کی خیبرپختون خوا حکومت آئیڈیل نہ تھی تاہم اس نے دیگرصوبائی حکومتوں کی نسبت بہترڈیلیورکیا، جس کی وجہ سے2018ء کے انتخابات میں اس نے مرکز اور چاروں صوبوں میں گزشتہ انتخابات کی نسبت کہیں زیادہ عوامی حمایت حاصل کرلی۔
حالیہ انتخابات کے نتائج کے مطابق تحریک انصاف نے ایک کروڑ68لاکھ 84 ہزار266 ووٹ حاصل کئے جبکہ دوسرے نمبر پر مسلم لیگ ن رہی جسے ایک کروڑ 29لاکھ30ہزار117ووٹ ملے۔ پیپلزپارٹی کے ووٹ 69لاکھ13ہزار466ہیں، وہ ووٹوں اور نشستوں، دونوں اعتبار سے تیسرے نمبر پر رہی۔ تحریک انصاف نے دیگرجماعتوں پر سبقت حاصل کرکے قبل ازانتخاب ہونے والے رائے عامہ کے متعدد جائزوں کو غلط ثابت کردیا۔
یادرہے کہ نو میں سے سات جائزوں میں کہاگیاتھا کہ کامیابی مسلم لیگ ن کو ملے گی، مسلم لیگ ن 26سے38 فیصد جبکہ تحریک انصاف 23سے29فیصد ووٹ حاصل کرے گی۔ انتخابی نتائج رائے عامہ کاجائزہ لینے والوں کے اندازوں اور سیاسی جماعتوں(تحریک انصاف کے علاوہ) کی امیدوں سے بہت زیادہ مختلف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ ن، تحریک انصاف، متحدہ مجلس عمل، عوامی نیشنل پارٹی، ایم کیوایم سمیت دس سیاسی جماعتیں انتخابات کو دھاندلی زدہ قراردے کر نئے انتخابات کرانے کا مطالبہ کررہی ہیں۔
جن دنوں میں نئے اپوزیشن کیمپ سے ازسرنوانتخابات یا ملک بھر کے حلقے کھولنے کی آوازیں بلندہورہی تھیں، عمران خان اپنی رہائش گاہ بنی گالہ میں اس سوال کا جواب مرتب کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ وہ کس اندازمیں حکمرانی کریں گے؟ ان کا کہناہے:’’ہم اپنی حکومت کے پہلے100 دنوں میں وہ کام کریں گے جن سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا وجود منتشر ہوجائے گا‘‘۔ سوال یہ ہے کہ وہ کن خطوط پر حکمرانی کریں گے؟ کیا وہ اپنے دعووں پر پورا اترسکیں گے؟ آئیے! ان سوالات کا جوابات مرتب کرتے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے پہلے عمران خان کے نظریات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
٭عمران خان کا نظریہ حکومت اور گیارہ نکات
عمران خان پہلے دن سے بہت تیقن سے کہہ رہے ہیں کہ ’’ہم پاکستان کو فلاحی ریاست بنائیں گے‘‘ اور ’’ہمارا نظریہ مدینہ کی ریاست کا نظریہ ہوگا۔‘‘ ان کی اکثر گفتگوئیں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ وہ ریاست مدینہ کو اپنا آئیڈیل مانتے ہیں اور اسی سے روشنی حاصل کرتے ہوئے اپنی پالیسیاں ترتیب دیں گے۔ ان کا کہناہے کہ ’’قابلیت اور اہلیت ریاست مدینہ کا اہم جزو تھا اور قانون کی بالادستی ریاست مدینہ کا دوسرا اہم جزو تھا۔‘‘ عام انتخابات 2018ء کی انتخابی مہم شروع کرتے ہوئے انھوں نے قوم کے سامنے مندرجہ ذیل گیارہ نکات پیش کئے، انھیںتحریک انصاف کے منشور کا خلاصہ قرار دیاجاسکتا ہے:
1۔ قوم کو ایک بنانے کیلئے ایک تعلیمی نصاب لائیں گے۔
2۔ عوام کیلئے ہیلتھ انشورنس لے کر آئیں گے۔
3۔ ٹیکس سسٹم ٹھیک کریں گے اور 8 ہزار ارب روپے ہر سال قوم سے اکٹھا کرکے ملک کو قرضے سے نجات دلائیں گے۔
4۔ نیب کو مضبوط کرکے کرپشن کا خاتمہ کریں گے۔
5۔ سرمایہ کاری میں اضافہ کریں گے۔
6۔ لوگوں کو روزگار دیں گے اور 50 لاکھ سستے گھر بنائیں گے۔
7۔ پاکستان کو ٹورازم کا حب بنائیں گے، جس کے ذریعے بے روزگاری ختم ہوگی۔
8۔ شعبہ زراعت میں اصلاحات لائیں گے تاکہ کسان کی حالت بہتر ہو۔
9۔ وفاق کو مضبوط اور صوبوں کو حقوق دیں گے، جنوبی پنجاب کو نیا صوبہ بنائیں گے ۔
10۔ ماحولیات کا سسٹم بہتر کریں گے، پاکستان بھر میں 10 ارب درخت لگائیں گے۔
11۔ انصاف اور پولیس کا نظام بہتر کریں گے۔
٭ پہلے 100دنوں کا پروگرام
انتخابات سے چند روز قبل عمران خان نے اقتدارمیںآنے کی صورت میں پہلے100دنوں کا منصوبہ پیش کیا تھا۔ چیئرمین تحریک انصاف کا کہنا تھا:’’ہماری حکومت کے ابتدائی 100 روز پارٹی کی عکاسی کریں گے کہ پارٹی کس راستے پر گامزن ہے‘‘۔ اپنے اس منصوبے میں انھوں نے کس قسم کے عزائم اظہارکیاتھا، آئیے! ان کا مطالعہ کرتے ہیں۔
تحریک انصاف نے حالیہ انتخابات سے قبل پہلے 100 روز کے دوران جو اقدامات کرنے کا اعلان کیاتھا، اسے چھ نکاتی ایجنڈے کا نام دیاگیاتھا جس میں طرزِ حکومت کی تبدیلی کواولین ترجیح قراردیاگیاتھا۔اسکے علاوہ معیشت کی بحالی، زرعی ترقی اور پانی کا تحفظ، سماجی خدمات میں انقلاب، پاکستان کی قومی سلامتی کی ضمانت وغیرہ شامل ہیں۔ سول سروس میں اصلاحات لائی جائیں گی اور پولیس کو میرٹ کی بنیاد پر غیر سیاسی بنایا جائے گا۔ پی ٹی آئی حکومت اپنے ابتدائی 100 روز میں نوجوانوں کو نوکریاں فراہم کرے گی اور نچلے طبقے کو اوپر لایا جائے گا۔ پاکستان میں دنیا بھر کی طرح گلوبل وارمنگ کا خطرہ ہے، ملک سے جنگلات کا تیزی سے خاتمہ ہورہا ہے اور گرمی بڑھ رہی ہے، اس کا توڑ نکالنے کے لیے درخت لگانے ہوں گے۔
وفاقی کے زیرِ انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) کا خیبرپختونخوا میں انضمام کیلئے قانون سازی کی جائے گی اور یہاں پر تعمیر و ترقی کے لیے ایک بڑے منصوبے (میگا منصوبے) کا آغاز کیا جائے گا اور اس کے علاوہ فاٹا میں باقی تمام قوانین کو لاگو کرنے کا آغاز کیا جائے گا۔
بلوچستان میں بڑے پیمانے پر سیاسی مفاہمت کی کوششیں شروع کی جائے گی اور صوبے کا احساسِ محرومی ختم کرنے کے لیے صوبائی حکومت کو بااختیار بنایا جائے گا، اس کے ساتھ ساتھ صوبے میں ترقیاتی منصوبوں خصوصاً گوادر میں جاری ترقیاتی عمل میں مقامی آبادی کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے گا۔
جنوبی پنجاب میں بسنے والے تین کروڑ 50 لاکھ افراد کو غربت کی دلدل سے نکالنے اور صوبوں کے مابین انتظامی توازن قائم کرنے کے بنیادی مقاصد کے تحت صوبہ جنوبی پنجاب کے قیام کے لیے قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے گا۔
کراچی کی بہتری کیلئے خصوصی منصوبہ بنایا جائے گا جس میں بہتر انتظامات، سیکیورٹی، انفراسٹرکچر، گھروں کی تعمیر، ٹرانسپورٹ کا نظام، کچرا اٹھانے کا بہتر انتظام اور پینے کے صاف پانی جیسی سہولیات مہیا کی جائیں گی۔
پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے پسماندہ اور غریب ترین اضلاع سے غربت کے خاتمے کے لیے جاری کاوشوں کو تقویت دینے کے لیے خصوصی پلان تیار کیا جائے گا۔
حکومت نوجوانوں کو روزگار فراہم کرے گی اور پانچ برس کے دوران ایک کروڑ سے زائد نوکریاں پیدا کی جائیں گی، اور اس حوالے سے ملکی تاریخ کی سب سے زبردست حکمتِ عملی سامنے لائی جائے گی۔ تحریک انصاف اپنی اس پالیسی کے ذریعے ہنر دینے پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔
پاکستان کی پیداواری صنعت کو عالمی منڈی میں مقابلے کی اہلیت سے آراستہ کرنے، برآمدات کو فروغ دینے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے کم ٹیکس، برآمدات پر چھوٹ اور اضافی سہولیات پر مبنی امدادی پیکج کا اعلان کیا جائے گا، اور مزدورں کی حفاظت لیے ایک لیبر پالیسی شروع کی جائے گی۔
نجی شعبے کے ذریعے پانچ سالوں کے دوران کم لاگت سے 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کے لیے ’وزیراعظم اپنا گھر پروگرام‘ شروع کیا جائے گا۔ اس پروگرام کے ذریعے صنعتی شعبے کو فروغ ملے گا، روزگار کے اسباب پیدا ہوں گے اور معاشرے کے غریب ترین طبقے کو چھت جیسی بنیادی سہولت میسر آئے گی۔
ملک میں موجود سیاحتی مقامات کو بہتر بنانے اور نئے مقامات کی تعمیر کے لیے نجی شعبے سے سرمایہ کاری کے لیے فریم ورک بنایا جائے گا۔
تحریک انصاف کی حکومت سرکاری گیسٹ ہاؤسز کو ہوٹلز میں بدلنے کا عمل شروع کرے گی، اور انہیں عوام کے لیے کھولا جائے گا جبکہ پہلے 100 دنوں کے دوران چار نئے سیاحتی مقامات دریافت کیے جائیں گے۔
حکومت ابتدائی 100 روز کے اندر فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی سربراہی کے لیے ایک دلیر، قابل اور متحرک چئیرمین فوری طور پر مقرر کرے گی اور ادارے کے لیے اصلاحاتی پروگرام متعارف کرایا جائے گا۔
حکومت کاروبار کرنے کی عالمی رینکنگ میں 147ویں نمبر سے نیچے جانے والے پاکستان کو 100 کے اندر لے کر آئے گی اور پاکستان میں کاروبار کو آسان بنانے، سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے، غیر ملکی پاکستانیوں کی معیشت میں شمولیت کو بہترکرنے اور ملکی برآمدات میں قابلِ ذکر اضافے کے لیے وزیراعظم کی سربراہی میں ’کونسل آف بزنس لیڈرز‘ قائم کیا جائے گا۔
تحریک انصاف اپنے ابتدائی 100 ایام میں ریاستی اداروں کی تنظیمِ نو، ملک میں توانائی بحران کا خاتمہ کرنے کے لیے اقدامات، شہریوں اور صنعتکاروں کی مالی وسائل تک رسائی میں اضافہ، اور پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اقتصادی راہدی منصوبے کو حقیقتاً ایک انقلابی منصوبہ بنانا ہے۔
طرز حکومت میں تبدیلی کیلئے شفافیت پہلا قدم ہوگا۔ تحریک انصاف قومی احتساب بیورو (نیب) کو مکمل خود مختاری دے گی اور بیرونِ ملک محفوظ مقامات پر چھپائی گئی چوری شدہ قومی دولت کی وطن واپسی کے لے خصوصی ٹاسک فورس قائم کی جائے گی اور بازیاب کی گئی دولت غربت میں کمی لانے اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں استعمال کی جائے گی۔ پختونخوا طرز کے بہتر بلدیاتی نظام کو پورے ملک میں لایا جائے گا، جس کے ذریعے اختیارات اور وسائل کی گاؤں کی سطح تک منتقلی کی راہ ہموار کی جائے گی۔
خیبرپختونخوا میں پولیس کی اصلاح کے کامیاب نمونے کی پیروی کرتے ہوئے تمام صوبوں میں قابل اور پیشہ وارانہ مہارت کے حامل انسپکڑ جنرلز کی فوری تعیناتی کے ذریعے پولیس کو غیر سیاسی اور بہتر بنانے کے عمل کا آغاز کیا جائے گا۔
زیر التواء مقدمات کے خاتمے کا بندوبست کیا جائے گا، ایک برس کی مدت کے اندر تمام مقدمات کے تیز تر اور شفاف ترین فیصلوں کے لیے متعلقہ ہائی کورٹس کی مشاورت سے خصوصی طور پر تحریک انصاف کے ’جوڈیشل ریفارمز پروگرام‘ کا آغاز کیا جائے گا۔ حکومت کے پہلے 100 روز سے متعلق ایجنڈے میں وفاقی بیورو کریسی میں خالصتاً اہلیت و قابلیت کی بنیاد پر موضوع ترین افسران مقرر کریں گے۔
سول سروسز کے ڈھانچے میں کلیدی تبدیلی کے منصوبے کی تیاری کیلیے ’ٹاسک فورس‘ قائم کی جائے گی جو سرکاری افسران کی مدتِ ملازمت کے تحفظ اور احتساب کے طریقہ کار کے ذریعے بیورو کریسی کی ساکھ بہتر بنانے کے لیے قابل عمل تجاویز مرتب کرے گی، جس کے نتیجے میں ذہین اور قابلیت کے حامل افراد کو بیوروکریسی میں شمولیت کی ترغیب ملے گی اور ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے ان کی خدمات کے حصول کا انتظام کیا جائے گا۔
حکومت اپنے ابتدائی 100 ایام میں کاشتکار کیلئے زراعت کو منافع بخش بنانے کیلئے زرعی ایمرجنسی کا نفاذ کرے گی، کسانوں کی مالی امداد اور وسائل تک رسائی میں اضافہ کیا جائے گا اور زرعی اجناس کے مناسب دام یقینی بنانے کے لیے منڈیوں اور ذخائر میں اضافے کی مہم شروع کی جائے گی۔ حکومت پاکستان کودودھ اور دودھ سے بنی مصنوعات میں خود کفیل بنانے کا منصوبہ شروع کرے گی اور لاکھوں چھوٹے چھوٹے کسانوں کو بہتر کرنے کے لیے گوشت کی پیداوار کو بڑھانے پر ایک پروگرام متعارف کرایا جائے گا۔ حکومت دیامربھاشا ڈیم کی تعمیر میں تیزی کے لیے وزیراعظم کی سربراہی میں فوری طور پر ’نیشنل واٹر کونسل‘ قائم کرے گی، اور قومی سطح پر پانی کے بچاؤ کی کوششوں میں توسیع کے لیے قومی واٹر پالیسی سے ہم آہنگ منصوبہ مرتب کیا جائے گا۔
صحت اور تعلیم کے شعبے میں انقلاب برپا کرنے اور تحریک انصاف کی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ حکومت پہلے 100 روز میں مفصل منصوبے مرتب کرے گی جس کے ذریعے واضح کیا جائے گا کہ کیسے تحریک انصاف کی حکومت پانچ سالوں میں صحت اور تعلیمی معیار، عوام کی ان تک رسائی اور ان کے انتظامِ کو بہترکرنے کویقینی بنائے گی۔ ’صحت انصاف کارڈ‘ کو پورے ملک میں موجود خاندانوں تک توسیع دی جائے گی۔
انکم سپورٹ پروگرام کو فوری طور پر 54 لاکھ خاندانوں سے بڑھا کر خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے80 لاکھ خاندانوں تقریباً چھ کروڑ پاکستانیوں تک توسیع دی جائے گی، جبکہ معذور افراد کے لیے خصوصی پروگرام شروع کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ خواتین کی ترقی اور بہبود، شہریوں کے لیے پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور ماحول کے تحفظ کے لیے شجر کاری کی جائے گی۔
حکومت اپنے 100 روزہ ایجنڈے کے مطابق وزارت خارجہ کی ادارہ جاتی استطاعت بشمول قانونی استطاعت، صلاحیت اور عالمی رسائی میں اضافے کے ذریعے وزارت کومضبوط بنانے کے عمل کا آغاز کیا جائے گا۔ حکومت میں آنے کے بعد قومی مفادات سے ہم آہنگ پالیسیوں کا آغاز کرے گی اور پاکستان کی ترجیحات کو مدنظر کھتے ہوئے مغربی اور مشرقی ہمسایوں کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے لیے تنازعات کے حل کا کلیہ اپنایا جائے گا۔
حکومت اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کے حل کی منصوبہ بندی کے لیے کام کا آغاز کرے گی۔ علاقائی اور عالمی طور پر دو طرفہ اور کثیرالجہتی سطح پر پاکستان کی مطابقت میں اضافے کے لیے چین اور خطے میں پاکستان کے دیگر اتحادیوں کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری کو توسیع دی جائے گی۔ خارجہ پالیسی کے ذریعے معیشت کی مضبوطی کے لیے اقدامات کیے جائیں گے، نیشنل سیکیورٹی آرگنائزیشن کا قیام عمل میں لایا جائے گا اور ساتھ ساتھ داخلی سیکیورٹی میں اضافہ کیا جائے گا۔
٭انتخابی نتائج کے بعد، توقعات
انتخابی کامیابی کے بعد عمران خان نے اپنے نومنتخب ارکان اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ روایتی سیاست نہیں کریں گے،میں پروٹوکول لوں گا نہ ہی شاہ خرچیاں کی جائیں گی، میں خود مثال بنوں گا اور آپ سب کو بھی مثال بننے کی تلقین کروں گا۔ ان کا کہناتھا کہ عوام ہم سے روایتی طرز سیاست و حکومت کی امید نہیں رکھتے، روایتی طرز حکومت اپنایا تو عوام ہمیں غضب کانشان بنائیں گے ، عوام آپ کے طرز سیاست اور کردار کے مطابق ردعمل دیں گے۔ ہم حکومت میں نہیں بلکہ جہاد کرنے آئے ہیں، ہمیں اپنے اخراجات کم کرناہوں گے۔ ان کا کہناتھا کہ کمیٹی بنا کر وزیراعظم ، صدر، وزیروں کے خرچے کم کریں گے۔ نیا پاکستان بنانا ہے، سب لوگوں کا احتساب ہوگا ، میرٹ پر وزیراعلیٰ اور وزیروں کا انتخاب میری ذمہ داری ہے، سب وزیروں کو ٹارگٹ دیں گے، وزیروں کو 9 بجے دفتر پہنچنا ہوگا۔
تحریک انصاف پانچ سالہ (صوبائی) حکومتی تجربے کے بعد اب وفاق اور دوصوبوں میں حکمرانی کرے گی، اس اعتبار سے یقیناً اس کی حکومتیں اپنے انتخابی وعدے پورے کرے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو اس وقت ایک مستحکم حکومت کی ضرورت ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ عمران خان اور ان کی جماعت اپوزیشن سے الجھاؤ میں نہ پڑیں، یہ ایک بڑا چیلنج ہے، اگر وہ اس میں کامیابی حاصل کرتے ہیں تو اس کا فائدہ ہوگا کہ وہ اپنے منصوبوں پر عمل درآمد کرنے میں پوری طرح یکسو رہیں گے۔
ایسا نہ ہو کہ پانچ سال بعد تحریک انصاف والے کہیں کہ انھیں ڈسٹرب کیاگیا۔ اپوزیشن کا سب سے بڑا ایشو حلقے کھلوانا ہیں، انتخابی نتائج ابھی مکمل نہیں ہوئے تھے کہ عمران خان نے تمام حلقے کھلوانے کا وعدہ کیاتھا۔ اس وعدے پر عمل درآمد ضروری ہے بصورت دیگر اپوزیشن جماعتیں حکومت کو الجھانے کے لئے صف بندی کررہی ہیں۔
تحریک انصاف کے مختلف رہنماؤں کی طرف سے ایسے بیانات آناشروع ہوگئے جن سے اپوزیشن رہنماؤں کو کہنے کا موقع مل رہاہے کہ نئے حکمران اپنے وعدوں سے یوٹرن لے رہے ہیں۔ مثلاً تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور متوقع وزیرخزانہ اسدعمر کا کہناہے کہ چھ ماہ تکلیف دہ ہوں گے، عوامی منشا پر پورا اترنے اور اپوزیشن میں بیٹھ کر دعوؤں میں زمین آسمان کا فرق ہوتاہے۔
اس اعتبار سے اگر وہ اپنے پہلے 100دنوں کے حوالے سے وعدے پورے نہیں کرتی تو وہ اس کے بارے میں عوامی اعتماد کا گراف پہلے سو دنوں میں ہی گرنا شروع ہوجائے گا۔ اس لئے عمران خان کو چاہئے کہ وہ اپنے وعدوں سے پیچھے نہ ہٹیں چاہے اس کے لئے جو بھی قیمت ادا کرنا پڑے، پہلے 100دنوں میں جو کام کرنے کا وعدہ کیا، وہ 100دنوں میں پورے ہونے چاہئیں۔ ان کی حکومت کے ابتدائی 100 ایام بہرصورت پارٹی پالیسیوں کے عکاس ہونے چاہئیں۔ بھارتی ریاست دہلی میں ’عام آدمی پارٹی‘ کے نام سے ایک نئی جماعت برسراقتدارآئی تو اس نے اپنے اقتدار کے پہلے 100دنوں کے دوران میں بجلی کے نرخ 50فیصد کم کرنے جیسے اقدامات کرکے عوام کا دل موہ لیا، پہلے تین مہینوں کے دوران میں آدھے سے زائد انتخابی وعدے پورے کردئیے تھے۔ اگر عمران خان کی حکومت بھی پہلے سو ایام میں ایسا کرشمہ دکھادے تو عمران خان کا اگلے 22 برس تک اقتدار میں رہنے کا خواب پورا ہوجائے گا۔
بدقسمتی سے پچھلے کئی عشروں سے پاکستان میں زراعت کا شعبہ بری طرح نظرانداز ہوا، کسان دوستی کے دعوے کئے گئے لیکن یہ محض دعوے ہی تھے۔ پرانے نصابوں میں پڑھا کرتے تھے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن حقیت یہ ہے کہ پاکستانی کسان بری طرح تباہ ہوچکاہے۔ اگراگلے پانچ برسوں میںملک میں سبز اور سفید انقلاب بپا ہوگیا تو یہ نئی حکومت کا بڑا کارنامہ ہوگا۔
اس تناظر میں زرعی شعبے سے متعلق وعدے پورے ہونے چاہئیں۔ پہلے 100ایام میںکاشتکار کیلئے زراعت کو منافع بخش بنانے کیلئے زرعی ایمرجنسی کا نفاذ، کسانوں کی مالی امداد اور وسائل تک رسائی میں اضافہ اور زرعی اجناس کے مناسب دام یقینی بنانے کے لیے منڈیوں اور ذخائر میں اضافے کی مہم شروع ہونی چاہئے۔ پاکستان کودودھ اور دودھ سے بنی مصنوعات میں خود کفیل بنانے کا آغاز نظر آنا چاہئے اور لاکھوں چھوٹے چھوٹے کسانوں کو بہتر کرنے کے لیے گوشت کی پیداوار کو بڑھانے پر پروگرام بہرصورت متعارف ہوناچاہئے۔
اب وقت آگیا ہے کہ عمران خان ٹیکس چوری کو ختم کرنے اور ملکی خزانہ بھرنے کے اپنے خواب پورے کریں۔ بطور اپوزیشن رہنما، ٹیکس اکٹھا کرکے وہ پاکستان کو خوشحال بنانے اور اس کے قرضے اتاردینے کا خواب دکھایاکرتے تھے، اب قوم اس کی تعبیر دیکھناچاہتی ہے۔ عمران خان کہاکرتے تھے کہ پاکستان میں سالانہ 3.2کھرب روپے کی ٹیکس چوری ہوتی ہے۔ہم ایک سال میں آٹھ ہزار ارب روپے اکٹھا کر یں گے۔ انھوں نے اس کا طریقہ بھی بیان کیاتھا کہ وہ ٹیکس کم کریں گے۔ اب انھیں اپنا یہ وعدہ وفا کرنا ہوگا، صرف اسی صورت میں وہ پاکستان سوئٹزرلینڈ بن سکے گا، یادرہے کہ عمران خان دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ وہ نیب ، ایف آئی اے اور ایف بی آر کو ٹھیک کرکے پاکستان کو سوئٹزر لینڈ بنادیں گے۔ یقیناً کرپشن کا مکمل قلع قمع کرکے پاکستان اور اس کی قوم کے وسائل کو بچاکرفلاح وبہبود کے شعبوں میں لگایاجاسکتاہے۔
تحریک انصاف سیاحت کے شعبے کو فروغ دینے کی بات کرتی تھی، اگر اس نے اپنے وعدے کے مطابق پہلے 100 دنوں کے دوران چار نئے سیاحتی مقامات دریافت کرلیے تو یہ ایک بڑی پیش رفت ہوگی۔ اسی طرح پہلے سے موجود سیاحتی مقامات میں سیاحوں کے لئے زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کی جائیں، وہاں صفائی کا اہتمام ازحد ضروری ہے کیونکہ آلودگی تیزی سے یہاں کا ماحول گندا کررہی ہے۔ امید ہے کہ اگلے پانچ برسوں کے دوران میں ملک میں امن وامان کی صورت حال اس قدر بہتر ہوجائے گی کہ بیرونی سیاحوں کو پاکستان کی طرف راغب کیاجاسکے۔
ملک کو نئی شکل وصورت دینے اور اسے تیزرفتار تعمیر و ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لئے جن انقلابی پالیسیوں کی ضرورت ہے، اس کے لئے ٹیم کا انقلابی ہونا ضروری ہے۔ اطلاعات ہیں کہ عمران خان نے ہرشعبے کو اس کے بہتر ماہرین کے ساتھ چلانے کی حکمت عملی وضع کی ہے۔اس تناظر میں امید کی جاسکتی ہے کہ عمران خان اپنے تصورات کے عین مطابق پاکستان کی تعمیر کرسکیں گے۔ پاکستانی قوم کو واقعتاً ایک فلاحی ریاست میں زندگی بسر کرنے کا موقع میسر ہوگا۔
عمران خان
عمران احمد خان نیازی 5 اکتوبر، 1952 کو میانوالی میں محترمہ شوکت خانم اور اکرام اللہ خان نیازی کے گھر میں میں پیدا ہوئے ،جوانی میں بہت خاموش اور شرمیلے تھے ، عمران خان نے والدین کا واحد بیٹا ہوتے ہوئے چار بہنوں کے ساتھ پرورش پائی ، والد کا تعلق پشتون اور نیازی قبیلے کے شرمنخیل خاندان سے تھا۔ عمران خان اب بھی اپنے خاندانی پس منظر کو پٹھان ہی سمجھتے ہیں۔
انھوں نے پہلے کیتھڈرل سکول، بعدازاں ایچی سن کالج سے ابتدائی تعلیم حاصل کی ،کبلی کالج آکسفورڈ سے اپنی معاشیات کی انڈر گریجویٹ ڈگری سے قبل رائل گرامر سکول ورکسٹر میں داخل ہوئے ، 1974 میں یونیورسٹی کے دوران عمران خان آکسفورڈ یونیورسٹی کرکٹ ٹیم کے کپتان رہے۔ عمران خان اور ان کی والدہ کا خاندانی پس منظر کرکٹ سے وابستہ ہے جس میں کامیاب ہاکی پلیئر بھی شامل تھے، جنھیں برکی کہا جاتا تھا۔ عمران خان کے کھلاڑی کزنز میں جاوید برکی اور ماجد خان شامل ہیں جنہوں نے پاکستان کیلئے ٹیسٹ کرکٹ بھی کھیلی، ان کے والد کے خاندان کی جانب سے عمران خان کے شاہد علی خان جیسے کزن تھے جو ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں رہے۔
عمران خان کرکٹ کی تاریخ میںاعلیٰ پائے کے آل راؤنڈر اور بڑے فاسٹ بولر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انھوں نے1971 ء سے 1992ء کے درمیان پاکستان کیلئے ٹیسٹ کرکٹ کھیلی، ان کی قیادت میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے ورلڈکپ جیتا۔ اس کے بعد پاکستانی ٹیم تاحال یہ عالمی اعزاز دوبارہ حاصل نہ کرسکی۔ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد عمران خان نے لاہور میں شوکت خانم کینسر ہسپتال و ریسرچ سنٹر کا آغاز کیا۔ نوّے کی دہائی میں ’پاکستان تحریک انصاف‘ کے نام سے ایک سیاسی پارٹی قائم کی، پارٹی کا بنیادی مقصد آزاد عدلیہ کے ذریعے پاکستان کے لوگوں کو انصاف دلانا قرار پایا۔ تحریک انصاف کی ویب سائٹ کے مطابق یہ پارٹی اسلامی اقدار پر ایمان رکھتی ہے اور عمران خان اسلامی نظریات سے متاثر ہیں۔
بطور سیاستدان ، عمران خان کی سوچ اور مقصد پاکستان کو انصاف سے بھرے معاشرے میں تبدیل کرنا ہے جہاں انسانیت کی بنیاد پر فیصلے ہوں، ایسا کرنے کیلئے وہ ایک ایسی آزاد عدلیہ چاہتے ہیں جو جمہوریت کو مضبوط، انسانی حقوق کا تحفظ اور قانون کی بالادستی قائم کرے ، ایسے میرٹ کی مثال قائم کرے جو معاشرے میں ہر ایک کیلئے برابری کی سطح پر مواقع پیدا کرے، کام کرنے والے طبقے میں معاشرتی شعور پیدا ہو۔ وہ پاکستان کا مدینہ منورہ جیسی اسلامی ریاست بناناچاہتے ہیں۔
عمران خان کے سیاسی آئیڈیل ڈاکٹر اور فلاسفر علامہ محمد اقبال ہیں۔ عمران خان نے برطانیہ کے معروف اخبار ’ٹیلی گراف‘ سے اپنے انٹرویو کے دوران اپنے سیاسی مقاصد واضح کرتے ہوئے کہاتھا: ’’میں پاکستان کو ایک فلاحی ریاست دیکھنا چاہتا ہوں جس میں حقیقی جمہوریت، قانون کی بالا دستی اور آزاد عدلیہ ہو . ہمیں مرکزی طاقت کو ختم کرکے نچلی سطح پر لوگوں کو با اختیار بنانا ہے۔‘‘عمران خان 2002ء میں پہلی بار میانوالی سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، سن2013ء کے انتخابات میں چارحلقوں سے الیکشن لڑا، تین میں کامیابی حاصل کی جبکہ انتخابات2018ء میں پانچ حلقوں سے جیت کر کلین سویپ کیا۔