ماہ آزادی پر نامور شاعر و ادیب انور شعور کے خیالات
انور شعور نامور شاعر ہیں ، آپ کئی اخبارات اور رسائل سے وابستہ رہے ہیں، آپ کی اب تک تین تصانیف شائع ہوچکی جن میں ’’اندوختہ، مشق سخن، می رقصم‘‘ شامل ہیں۔ کم تعلیمی یافتہ ہونے کے باوجود آپ نے مطالعے پر زور دیا اور معاشرے میں اپنی جگہ بنائی۔ ماضی میں آپ ریڈیو پاکستان پر بچوں کے کئی پروگرام کرچکے ہیں اور سب رنگ ڈائجسٹ سے بھی وابستہ رہے ہیں۔ دیگر نامور شاعروں کے ساتھ آپ کے بہت گہرے مراسم رہے ہیں۔ آپ اردو کے فروغ کے لیے مختلف انجمنوں اور اداروں سے وابستہ رہے اور آپ کا کلام مختلف ’’فنون‘‘ دیگر رسائل میں شائع ہوتا رہا ہے۔ آپ کے مشہور اشعار میں سے ایک شعر درج ذیل ہے۔
آپ نے ہر موضوع پر شعر لکھے ہیں اور آج نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ یومِ اگست کے حوالے سے ہم نے انور شعور سے رابطہ کیا اور اس حوالے سے اُن کا تفصیلی انٹرویو لیا جو آپ کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔
تقسیم کے 68سال کیسے گزرے یہ تو نہیں معلوم ہاں مگر افسوس یہ ہے کہ ہم جس پاکستان کے لیے ہجرت کر کے آئے تھے وہ پاکستان دو لخت ہوگیا۔ بمبئی میں تحریک آزادی زور و شور سے جاری تھی، جناح صاحب نے اپنا سیاسی تدبراستعمال کیا اور ہندوستان کے مسلمانوں کو نیا ویژن دیا۔ جس کی بدولت ہندوستان کے مسلمانوں کی خاصی بڑی تعداد نے بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان کا رُخ کیا۔
جواب : وطن پہنچنے اور یہاں بسر ہونے کے بعد ہر خاندان کی لازاوال قربانیوں کی اپنی داستاں ہے تاہم اُس وقت کے دارلحکومت کراچی پہنچنے تک ہمارا خاندان کن مراحل سے گزرا یہ بہت لمبی اور کٹھن داستان ہے، بس یوں سمجھو کہ جو بیٹھے بیٹھے پانی کا حکم دیتا تھا اُس کو یہاں آکر روٹی حاصل کرنے کےلیے تک و دو کرنی پڑی بات صرف یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ اس اجنبی شہر میں اجنیبت کا بہت احساس تھا، بہن بھائیوں کے بچھڑنے کے غم نے تو کئی سال تک جینے کی آس تک چھین لی تھی۔ا
ہم تو اُس وقت بہت چھوٹے تھے اس بات کا غم تو ہمارے والدین کو بہت تھا یہی وجہ ہے کہ وہ وقت سے پہلے بوڑھے ہوئے اور دوبارہ اپنے آبائی گھر کو دیکھنے اور دیگر رشتے داروں کی حسرت لیے دنیائے فانی سے کوچ کرگئے، پاکستان آنے کے بعد سب سے پہلا واقعہ مجھے جناح صاحب کا جنازہ یاد ہے جس میں لوگوں کا جم غفیر دیکھ کر میں دنگ رہ گیا تھا اس سے قبل اتنے لوگ کسی جگہ پر اتنی بڑی تعداد میں نہیں دیکھے تھے۔
ہمارے مستقبل اور ایمان کو بچانے کی خاطر ہمارے والدین نے اس خطے کا رخ کیا مگر افسوس صورتحال تبدیل نہیں ہوئی بلکہ وہی ہے جو تقسیم سے قبل سنتے آئے تھے۔ بمبئی سے ہمارے اہل خانہ پرانا اردو کالج بوہرہ پیر منتقل ہوئے جہاں روڈ بہت چوڑے چوڑے تھے اور ریڈیو اسٹیشن سے آگے بہت کم آبادی تھی کچھ عرصہ اس علاقے میں رہائش اختیار کی، اس کے بعد ہمارے والد نے ناظم آباد میں گھر لیا۔ اس علاقے میں مجھے تعلیم کے حصول کے لیے حسینی ہائی اسکول میں داخل کروایا گیا وہ الگ بات ہے کہ تعلیم میں عدم دلچسپی کے باعث تعلیم صرف 5ویں کلاس تک حاصل کی اور مزید تعلیم حاصل کرنے کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے گھر سے بھاگ گیا۔
اس دوران مجھے نعت خوانی کا جنون سوار ہوگیا تو گھر والوں نے اس یقین دہانی کے ساتھ گھر واپس بلایا کہ وہ دوبارہ اسکول میں داخل نہیں کروائیں گے اور آئندہ میں تعلیم کے حصول کے لیے مدرسے جاؤں گا۔ مدرسے جانے کے بعد مجھے شاعری کا شوق سوار ہوا اور پھر شعراء اکرام و ادبی لوگوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس دوران مجھے ایک استاد ملے جنہوں نے میرے ذوقِ شاعری کو دیکھتے ہوئے کئی تصانیف عنایت کی بعد ازاں مطالعہ کرتے کرتے ملک کی کئی بڑی ہستیوں سے ملاقات کا شرف بھی حاصل رہا۔
سرکاری ملازمت تو اچھی تعلیم سے میسر آتی ہے تاہم میں بچوں کے رسائل کو بڑے ذوق سے پڑتا رہا اور آہستہ آہستہ کر کے ریڈیو پاکستان کے پروگراموں میں اپنی جگہ بنائی اور اپنے آپ صلاحیتیوں کو وہی سے منوانا شروع کیا۔
اس حوالے سے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 11 دسمبر 1971 کو اچانک اُس وقت کے صدر یحیٰ خان کی تقریر نشر ہوئی جس میں انہوں نے للکارتے ہوئے پیغام دیا کہ ’’ہم ہر جگہ لڑیں گے ، دفتروں، چوکوں، بستیوں ، آبادیوں وغیرہ وغیرہ میں جنگ کریں گے ‘‘۔ اس اعلان کے نشر ہونے کے بعد میں نے اسٹیشن میں بیٹھے تمام افراد کو روتے ہوئے دیکھا کیونکہ لوگ سمجھ گئے تھے کہ وطن دو لخت ہوگیا ہے ‘‘۔
سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ ہماری افواج نے وہاں کی عورتوں کے ساتھ عصمت دری کی ، نوجوانوں پر مظالم کیے ،بچوں کو قتل کیا۔ یہ سب غلط اور پروپیگنڈا ہے وہاں جو کچھ بھی ہوا وہ ردعمل تھا ہاں مگر یہ بتاؤ ہماری فوج وہاں ظلم کیوں کرتی کہ جب ’’بنگالہ دیش کی افواج نے ہمارے 90 ہزار فوجی گرفتار کیے ہوئے تھے اور ایسے ہی کئی ہزاروں فوجی ہتھیار ڈال چکے تھے‘‘۔
پاکستان دو لخت نہ ہوتا مگر یہ ایک سازش کے تحت کیا گیا، بنگلہ دیش میں ڈیوٹی پر مامور پاکستانی فوجیوں کو علم نہیں تھا کہ بنگلہ دیش آزاد ہورہا ہے انہوں نے اپنے سنیئرز کے احکامات مانتے ہوئے ہتھیار ڈالے اور یحیٰ خان نے بھی ایک موقع پر یہی کہا کہ ہم نے فتح حاصل کرلی ہے اور پاکستان دولخت نہیں ہوا ۔ بنگلہ دیش پاکستان کا حصہ ہی ہے تاہم صورتحال سامنے آنے پر معلوم ہوا کہ واقعی ہم ٹوٹ چکے ہیں‘‘۔
جناح کے بعد اگر ملک میں کوئی قومی لیڈر کے طور پر سامنا آیا تو وہ اُن کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح تھیں تاریخ گواہ ہے کہ اُن کے ساتھ ہم نے بہت غلط رویہ اختیار کیا اور دھاندلی کے ذریعے اُن کا سیاسی قتل کیا، شاید یہ کسی تسلسل کا سلسلہ تھا۔
بعد ازاں ملکی معاملات کو جاگیر دار وڈیروں کے حوالے کردیا گیا اور قوم مختلف ٹولوں قومیتوں، فرقوں کے نام پر بٹ گئی، ان جاگیر داروں نے ہمارے ملک کے ساتھ بہت غلط کیا اور سازش کے تحت اقتدار پر آج تک قابض ہیں۔
حیران کُن بات یہ ہے کہ بھارت کے مسلمان ہندو حکومت کو برا نہیں کہتے وہاں کے مسلمانوں کا ماننا ہے کہ ’’بھارت میں نوکریاں، تعلیمی اداروں میں داخلوں سمیت ہر چیز میرٹ پر ہوتی ہے۔ رواں سال ریختہ کی جانب سے منعقد کردہ مشاعرے میں شرکت کرنے کے بعد میں نے وہاں کے ایک طالب علم سے سوال کیا کہ ’’کیا تمھارے ساتھ ہندو حکومت کا رویہ صیح ہے تو اُس سے ایک لمحہ ٹھرے بغیر جواب دیا کہ ہمارے ملک میں میرٹ کا نظام ہے اگر میں میرٹ پر پورا اتروں گا تو میں ہر چیز حاصل کرسکتا ہوں‘‘۔
ہاں مگر بھارت میں ذات پات کا بہت تفرقہ ہے مگر ہم اُس ملک کو تنقید کا نشانہ اس لیے نہیں بناسکتے کیونکہ ہمارے ملک کے جاگیردار طبقے نے رعایا اور اپنے درمیان اُس سے بھی خطرناک فرق رکھا ہوا ہے، ہمارا ملک اسلامی ہے تاہم اسلامی اصولوں کے حساب سے تمام زمین اللہ کی ہے مگر ہمارے اسلامی ملک میں اس اصول کو بالائے طاق رکھ دیا گیا اسی وجہ سے پوری قوم مخمصے کا شکار ہے۔
مجھے امید ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ پاکستان ترقی کرے گا آج کے نوجوانوں تک جو باتیں نہیں پہنچی اُس کے ذمہ دار ہماری نسل ہے، میری نوجوانوں سے گزارش ہے کہ اپنے حصے کا کام کریں آہستہ آہستہ پورا ملک صیح ہوجائے گا اور یہ زمین ہمیں تسلیم کر لے گی۔
آزادی کے بعد سے آج تک یہ تعین نہیں کیا گیا کہ بطور پاکستانی ہمیں اس ملک کی خدمت کے لیے کیا کرنا ہے کیونکہ اس کی سب سے بڑی وجہ سرمایہ دارانہ نظام ہے مگر آپ نوجوان اپنے حصے کا کام کرتے جاؤں تاکہ ملک مستحکم رہے۔
قائد نے چند سال میں حاصل یہ گھر کیا
اسلامیانِ ہند کی شب کو سحر کیا
لیکن سوال یہ ہے کہ ! اے رہ روانِ قوم
ستر برس میں آپ نے کتنا سفر کیا