میں نے نہیں مارا، بھوت نے مارا ہے!
کوئٹہ میں ہونے والے حالیہ دھماکے میں وکلا، صحافیوں اور دیگر شہریوں کی ہلاکت نے جہاں جذباتی طور پہ ہم سب کو ہلا کر رکھ دیا وہیں بہت سے سوالات جن کے جواب تو پہلے بھی ادھار تھے، مزید واضح ہو کر سامنے آ گئے۔
گھسی پٹی تعزیت، بے روح مذمت اور زبانی کلامی کے پُرسے، اب اتنے بے وقعت ہو چکے ہیں کہ ان پہ تنقید کرنا بھی الفاظ کا زیاں لگتا ہے۔ کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ یہ کسی بہت مہنگے سوپ اوپرا کا سیٹ ہے جس پہ ’ بھابھیوں‘،’ پھوپھیوں ‘ساسوں اور کپتی نندوں کا میلہ لگا ہوا ہے۔
سب سے پہلے تو اس لفظ ’دہشت گرد‘ کی جامع تشریح کی جائے۔ یہ کون ہیں؟ فی الحال تو یہ خاندان کی وہ کٹنی پھپھو لگتی ہے جو ہر جھگڑے فساد اور شکر رنجی کا باعث ہوتی ہے۔ وہ یہ سب کیوں کرتی ہے؟
اس پہ ہم سب کئی صدیوں سے باجماعت خاموش ہیں۔
کبھی یہ دہشت گرد کسی سستی بھوتیا فلم کا بھوت لگتے ہیں جو ہر قسم کے رکیک حملے کرتے ہیں (وہ حملے بھی جو بھوتوں کی اخلا قیات کے خلاف ہیں)
برہان وانی کی ہلاکت کے بعد کشمیر میں ہونے والے ہنگاموں کو دیکھتے ہوئے اگر بلوچستان میں کسی قسم کی در اندازی کا خدشہ تھا تو ’سافٹ ٹارگٹ ‘ کو بچانے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی؟
ہر سانحے کے بعد بھولی بھولی باتیں کرنے اور معصوم تاویلات دینے اور اس کی ذمہ داری ’ایکس فیکٹر‘ پہ رکھنے کی بجائے اگر واقعی ٹھوس ثبوت پیش کیے جائیں، دنیا کے سامنے یہ بات رکھی جائے کہ کشمیر میں اٹھنے والی تحریکِ آزادی سے اب ہمارا کوئی تعلق نہیں اور یہ جرائم سرحد پار سے کی جانے والی دراندازی ہے تو کیا بہتر نہ ہو گا؟
لیکن یہاں ہم بھولی بھابھی کی طرح ’میں نے تو بہن منہ سی لیا، سب پی گئی، اپنی جان پہ جھیل گئی‘ والی پالیسی پہ عمل کرتے ہیں۔
بلو چستان کے حالات کی خرابی کی ذمہ داری کبھی کسی پہ ڈالی جاتی ہے کبھی کسی پہ۔ جب کوئی نہیں ملتا تو ’پھپھو‘ یعنی دہشت گرد تو ہیں ہی۔
ہمارے ہاں ایک جگت خالو ہوا کرتے تھے، جو خاندانی تقریبات میں ایسے بچے تلاش کیا کرتے تھے جن کے ابا نو کری کے سلسلے میں شہر یا ملک سے باہر مقیم ہوں۔ اپنے شکار کو تاک کے وہ اسے ایسی جگہ گھیرتے تھے جہاں زیادہ سے زیادہ لوگ ان کی آواز سن سکیں پھر وہ چلا چلا کر پوچھتے،’ منے کے ابا کہاں گئے ہیں؟ منے کو ابا یاد آتے ہیں؟‘
یہ سوال وہ اس وقت تک دہراتے جب تک بچہ پھوٹ پھوٹ کر رو نہ پڑتا پھر وہ ’ارے، ارے، منے روتے نہیں‘ کہہ کر اسے چپ کراتے، اپنی جیب سے آئسکریم کھلاتے اور سارے خاندان میں کہتے پھرتے کہ کیا فائدہ ایسی کمائی کا؟ بچے تو احساسِ محرومی لے کر بڑے ہو رہے ہیں۔
خالو بچوں سے یہ سوال بھی کرتے تھے کہ آپ کو امی اچھی لگتی ہیں کہ ابو؟ دیوار کے ساتھ کھڑا کر کے بچوں کے قد بھی ماپتے تھے اوران سے دعائے قنوت سنتے اور اسلامیات کے نمبر پوچھتے تھے۔
ظاہر ہے کوئی بھی آستینیں سونت کر خالو سے لڑنے نہیں جا تا تھا۔ سب ہی کومعلوم تھا کہ وہ خود کو اچھا باپ اور باقی سب کو ظالم اور بے حس ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
خالو بھی بچوں سے صرف سوال کرتے تھے ان کو رلانے کے لیے گھونسے مکے اور لاتیں استعمال نہیں کرتے تھے، نہ ان کی کرسیوں کے نیچے تیلی پٹاخے پھاڑتے تھے اور نہ ان کی بوٹیاں نوچ کر ان کا احساسِ محرومی جگاتے تھے۔
رونے والے بچوں کی مائیں بھی اتنی سمجھدار تو ہوتی ہی تھیں کہ ان کی سسکیاں گھونٹنے کو ان کے منہ پہ طمانچے رسید کرتی تھیں نہ ان کی آواز دبانے کو انھیں گھر کے کمروں میں بند کرتی تھیں۔
کچھ باتیں اتنی سامنے کی ہوتی ہیں کہ ان کو سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے خالو نفسیاتی مریض بن چکے ہیں اور امی ہسٹیرک۔ ظاہر ہے ستر سال کا فساد کچھ تو اثر چھوڑے گا۔
میں نے ایک نیم مزاحیہ پر اسرار فلم لکھی تھی جو بن نہ سکی۔ اس میں ایک کامیڈین چھپ کر لوگوں کو تھپڑ مارتا ہے اور پکڑے جانے پر چلاتا ہے،’ میں نے نہیں مارا، بھوت نے مارا ہے‘۔
ہمارا معاملہ زیادہ اس لیے بگڑ گیا کہ امی اور خالو گونا گوں ذہنی امراض کا شکار ہوئے اور پھر ان میں اس کامیڈین کی روح حلول کر گئی (وہ کردار جو ادا نہ کیے جائیں بد روحیں بن کر لوگوں کو چمٹ جاتے ہیں)۔
اب آپ خود تصور کر لیجیے کہ ایک معصوم بچے کو رلانے اور چپ کرانے کے اس مقابلے میں کیا کیا، کیا جا رہا ہے؟ طرفہ تماشا یہ ہے کہ آخر میں دونوں کہتے ہیں:’ میں نے نہیں مارا، بھوت نے مارا ہے‘۔
شائد یہ واحد نکتہ ہے جس پہ یہ پاگل خالو اور حواس باختہ امی متفق ہیں۔