تحریر: ڈاکٹر مونس احمر
جب سے امریکا نے افغانستان میں مداخلت کی ہے، تب سے ویتنامی اور افغانی جنگوں کا اکثر موازنہ کیا گیا ہے۔ امریکا کو ویتنام میں شدید نقصان اٹھانا پڑا اور یہ جنگ امریکا کے لیے ایک بُرا خواب ثابت ہوئی جہاں پر اب بھی اس سے جنم لینے والے صدمے کی وجہ سے قومی یادداشت میں تلخ یادیں موجود ہیں، وہاں افغانستان میں بھی کوئی پھولوں کی سیج نہیں رہی ہے۔
آئیں یادیں تازہ کرتے ہیں کہ امریکا ویتنام میں کس طرح داخل ہوا۔ 1945ء میں ایک قومی آزادی پسند اتحاد ویت منہہ (Viet Minh) نے ہو چی منہہ (H Chí Minh) کی قیادت میں فرانسیسی غلبے کے خلاف دراندازی شروع کردی (فرانس نے 19ویں صدی کے وسط میں ویتنام کو کالونائز کرلیا تھا۔)
یہاں سے تناؤ میں اضافہ ہوا اور جنوری 1950ء میں عوامی جمہوریہ چین اور سوویت یونین نے شمال میں ہنوئی (Hanoi) میں قائم ویت منہہ کے ڈیموکریٹک ریپبلک آف ویتنام کو جائز حکومت کے طور پر تسلیم کرلیا۔
اگلے ہی ماہ امریکا اور برطانیہ نے سیگون (Saigon) میں سابق حکمران بو ای (Bo i) کی زیرِ قیادت فرانس نواز حکومت کو ویتنام کی جائز حکومت کے طور پر تسلیم کرلیا۔ امریکی حکومت نے ویتنام جنگ میں اپنی شمولیت کو جنوبی ویتنام پر کمیونسٹ غلبے کو روکنے کے طور پر لیا۔
دوسری جنگِ عظیم کے دوران اتحادی کے طور پر امریکا نے ویتنام میں لڑ رہی فرانسیسی افواج کو مالی اور عسکری امداد فراہم کی۔ 1950ء کی بہار سے امریکی مداخلت صرف فرانسیسی افواج کو امداد فراہم کرنے سے بڑھ کر براہِ راست عسکری مدد تک جا پہنچی۔ بتدریج امریکا نے باقاعدگی سے پہلے سے بھی زیادہ فوجی امداد بھیجنی شروع کردی اور 1965ء میں امریکی افواج زمینی لڑائیوں میں شامل ہوگئیں۔ اپنے عروج پر ان کی تعداد 5 لاکھ تھی اور وہ مسلسل فضائی بمباری کی مہمات میں بھی شریک رہیں۔
1968ء میں ویتنامی جنگ کے لیے ایک موڑ آیا۔ یہ وہ سال تھا جب زمین پر 5 لاکھ سے زائد افواج اور زبردست عسکری قوت ہونے کے باوجود امریکا نے پیرس میں امن مذاکرات پر رضامندی ظاہر کردی۔ یہ اقدام جنوبی ویتنام کے نیشنل لبریشن فرنٹ کو شکست دینے میں ناکامی کے بعد اٹھایا گیا تھا۔ اس تنظیم کو ویت کانگ (Viet Cong) بھی کہا جاتا تھا جو جنوبی ویتنام میں جنگ کے دوران امریکی اور جنوبی ویتنامی حکومتوں کے خلاف لڑنے والی ایک بڑی سیاسی تنظیم تھی۔)
1968ء کی شروعات میں ویت کانگ نے نارتھ ویتنامیز آرمی کے ساتھ مل کر مشہورِ زمانہ تیت (Tt) حملہ لانچ کرتے ہوئے جنوبی ویتنامی قصبے ہوئے (Hue) پر قبضہ کرلیا۔ تیت حملہ درحققیت ریپبلک آف ویتنام کی ساؤتھ ویتنامیز آرمی، امریکی افواج اور ان کے اتحادیوں کے خلاف پورے جنوبی ویتنام میں اچانک حملوں کی ایک لڑی تھی۔ اس حملے کا نام ویتنامی نئے سال ‘تیت’ سے پڑا جب پہلا بڑا حملہ کیا گیا تھا۔
اس حملے کے دوران سیگون میں امریکی سفارت خانے پر حملہ کیا گیا تھا جس کی وجہ سے امریکا کو کچھ عرصے کے لیے شمالی ویتنام پر بمباری روک کر ویت کانگ اور شمالی ویتنامی حکومت کے ساتھ پیرس امن مذاکرات شروع کرنے پڑے تھے۔ ویتنام میں 1968ء میں امریکا کی یہ پسپائی تھی جس کی وجہ سے واشنگٹن اس جنگ زدہ علاقے سے محفوظ راستہ تلاش کرنے کی کوششیں تیز کرنے پر مجبور ہوا۔
1965ء میں جب امریکا براہِ راست ویتنام جنگ میں داخل ہوا اور جب 1975ء میں وہ وہاں سے نکلا، اس دوران اس نے 58 ہزار فوجی اور 10 ہزار جنگی جہاز و ہیلی کاپٹر گنوائے، مگر پھر بھی وہ اس چیز کو شکست نہیں دے سکا جسے وہ انڈوچائنا میں ‘کمیونسٹ عفریت’ قرار دیتا تھا۔ عسکری تاریخ میں آج تک جنگ ہائے عظیم کے علاوہ کبھی اتنا بڑا جانی و مالی نقصان نہیں ہوا جتنا کہ ویتنام کی جنگ میں ہوا تھا۔
2018ء میں امریکا کے لیے افغانستان کی صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں۔ ویتنام کی طرح افغانستان میں بھی امریکا گہرائی تک دھنستا جا رہا ہے جبکہ اس کے پاس نکلنے کے محفوظ راستے کم ہیں۔ افغانستان بھی امریکا کے لیے خزانے کا مسلسل زیاں ہے جس کے پاس عسکری کامیابی یقینی بنانے کے لیے کوئی بہتر نتائج موجود نہیں ہیں۔ مئی 2018ء کے فارن پالیسی میگزین کی رپورٹ کے مطابق امریکی محکمہ دفاع ایک غیر مستحکم ملک میں جنگ جیتنے کے امکانات کے حوالے سے افغانستان میں امریکی کارروائیوں کی ایک مایوس کن تصویر پیش کرتا ہے۔
حالانکہ 4 دہائیاں گزر چکی ہیں، مگر اب بھی ‘ویتنام سنڈروم’ کا لفظ امریکیوں کے لیے نفسیاتی مسائل کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
مگر ویتنام اور افغانستان کا موازنہ کرتے ہوئے ہمیں کچھ عوامل کو مدِ نظر رکھنا ہوگا جس کی وجہ سے امریکا ویتنام میں ناکام ہوا اور دونوں ممالک میں امریکا کے خلاف مزاحمت کو بھی مدِ نظر رکھنا ہوگا۔
3 بڑی وجوہات نے ویتنام میں امریکی ناکامی میں اہم کردار ادا کیا۔
پہلی وجہ
غیر ملکی جارحیت کے خلاف ویتنامی مزاحمین کا بلند عزم و ہمت۔ بھلے ہی یہ بہت غیر متوازن جنگ تھی جس میں امریکا کو ویت کانگ اور شمالی ویتنام کے خلاف واضح عسکری برتری حاصل تھی، مگر یہ قوم پرست جذبات اور حب الوطنی تھی جس نے امریکا مخالف جنگجوؤں کو امریکی فوجیوں اور ان کے جنوبی ویتنامی اتحادیوں کے خلاف سرگرم گوریلا جنگ میں زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچا کر ایک مؤثر جنگِ آزادی لانچ کرنے میں مدد دی۔
پے در پے شکستوں کے بعد جون 1968ء میں واشنگٹن نے ویتنام میں امریکی ملٹری کمانڈر جنرل ولیم ویسٹ مورلینڈ کو جنرل کریٹن ایڈمز سے بدل دیا۔ مگر کمان میں تبدیلی کا حقیقی اثر بہت ہی کم تھا۔ 1968ء میں امریکی ہلاکتوں میں اضافے اور ویت کانگ کی جانب سے گوریلا جنگ میں شدت آنے کے بعد امریکا بھر میں عوامی مظاہرے شروع ہوگئے۔
دوسری وجہ
دوسرا یہ کہ ویتنام جنگ کے خلاف مظاہروں کو 1968ء میں بڑھاوا ملا اور یہ پوری دنیا بالخصوص یورپ اور ایشیاء میں پھیل گئے۔ شمالی ویتنام کے کئی شہروں اور قصبوں پر امریکی بمباری نے لوگوں کو مشتعل کیا، جس کی وجہ سے ویتنام سے امریکی انخلاء کا مطالبہ کرتے مظاہرے پھوٹ پڑے۔ 16 مارچ 1968ء میں امریکی فوجیوں کی جانب سے مائی لائی کے گاؤں میں قتلِ عام، جس میں سیکڑوں شہری بشمول 56 شیر خوار بچوں کو قتل کیا گیا، کی تصاویر کا منظرِ عام پر آنا ایک اہم موڑ تھا۔ لوگوں میں ویتنام جنگ کا تاثر بدل گیا جبکہ اس قتلِ عام کی بین الاقوامی مذمت نے واشنگٹن کو شرمسار کردیا اور دنیا بھر میں امریکا مخالف جذبات بھڑک اٹھے۔
تیسری وجہ
تیسرا، ویتنام میں امریکا اپنی عوامی حمایت گنوا چکا تھا اور سیگون میں اس کی کٹھ پتلی حکومت امریکی عسکری موجودگی کے بجائے اپنی قوت برقرار رکھنے میں ناکام تھی۔
بڑی حد تک یہ 3 وجوہات تھیں جس کی وجہ سے امریکا ویتنام سے نکلنے پر مجبور ہوا جو افغانستان میں موجود نہیں ہیں، بھلے ہی تیسرے معاملے میں کچھ مماثلتوں کے بارے میں ایک دلیل تیار کی جاسکتی ہے۔
1968ء کی شروعات سے ہی امریکا کے لیے ویتنام میں ناکامیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا باوجود اس کے کہ دسمبر 1968ء تک امریکی افواج کی تعداد 5 لاکھ 40 ہزار تک جا پہنچی تھی۔ 16 جنوری 1968ء کو شمالی ویتنامی حکومت نے یہ واضح کردیا تھا کہ وہ تب تک کسی امن مذاکرات میں شریک نہیں ہوگی جب تک کہ امریکا اس کی سرزمین پر بمباری روک نہیں دیتا۔ نتیجتاً پیرس میں طے شدہ مذاکرات کے لیے سازگار ماحول بنانے کے لیے واشنگٹن نے 31 مارچ کو اعلان کیا کہ شمالی ویتنام پر بمباری کو جزوی طور پر روک دیا جائے گا۔ اس سے پہلے یکم مارچ کو امریکی وزیرِ دفاع رابرٹ میک نمارا کو کلارک کلفورڈ سے تبدیل کیا گیا تھا۔
2018ء میں ٹرمپ انتظامیہ کو یہ محسوس نہیں ہوتا کہ وہ افغانستان میں ہار جائے گی، نہ ہی امریکا میں یا دنیا بھر میں کہیں بھی افغانستان میں امریکی عسکری کارروائیوں کے خلاف عوامی مظاہرے ہورہے ہیں۔
ویتنام اور افغان جنگوں کے معاملات مختلف ہیں مگر کچھ کچھ معاملات میں ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں۔ ویتنام کے معاملے میں امریکی فوجی مداخلت کا دورانیہ 10 سال تھا اور جنوبی ویتنام، کمبوڈیا اور لاؤس میں امریکی افواج کی کل تعداد 5 لاکھ سے زائد تھی۔
افغانستان میں امریکی فوجی مداخلت اکتوبر 2001ء سے جاری ہے جب 11 ستمبر کے حملوں کے بعد طالبان حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا۔ مگر پھر بھی افغانستان میں امریکی افواج کی مکمل تعداد کبھی بھی ایک لاکھ سے اوپر نہیں گئی، اور وہ بھی 2010ء میں امریکی صدر اوباما کی انتظامیہ کی ‘سرج’ یعنی اضافے کی پالیسی کے تحت تھا۔
افغانستان میں امریکی فوجیوں کے زخمی و ہلاک ہونے کی تعداد 10 ہزار سے نہیں بڑھی ہے اور اس نے اس ملک میں صرف 100 کے قریب جنگی طیارے اور ہیلی کاپٹر گنوائے ہیں۔ مگر افغانستان میں امریکا کی جنگ کے مالی اخراجات ویتنام جنگ سے بڑھ چکے ہیں کیونکہ یہ اب تقریباً 2 دہائی پرانی ہوچکی ہے۔ افغانستان میں جنگی حکمتِ عملی ٹیکنالوجیکل عوامل کی وجہ سے کافی جدید ہے چنانچہ اس قبائلی ملک میں امریکی زخمیوں اور ہلاک شدگان کی تعداد ویتنام سے کم ہے۔
1968ء میں نکسن انتظامیہ اس نتیجے پر پہنچ چکی تھی کہ وہ ویتنام جنگ نہیں جیت سکتی، اور یہ کہ اسے ایک ایسی جنگ سے ‘باعزت’ اخراج تلاش کرنا چاہیے جس کی وجہ سے نہ صرف جانی و مالی نقصان ہو رہا ہے بلکہ دنیا بھر میں رسوائی الگ ہو رہی ہے۔ مگر نکسن کے برعکس ٹرمپ نے اگست 2017ء میں اپنی افغان پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے افغانستان میں جنگ جیتنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔
ویتنام اور افغان جنگوں کے درمیان سب سے دلچسپ فرق مسلح جدوجہد کی نوعیت کا ہے۔ جہاں ویتنام میں ویت کانگ کی زیرِ قیادت گوریلا جنگ کافی مؤثر تھی، وہاں افغانستان میں یہ معاملہ نہیں ہے۔ ویسے تو افغانستان میں امریکا کے خلاف برسرِ پیکار مرکزی گروہ طالبان کا دعویٰ ہے کہ ان کا آدھے افغانستان پر کنٹرول ہے، مگر پھر بھی وہ کابل میں امریکی افواج یا امریکا نواز حکومت کو بھاری نقصان پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔
اس کے علاوہ ویتنام کی نیشنل لبریشن موومنٹ اپنے ہی لوگوں پر حملے نہیں کر رہی تھی، علاوہ ان لوگوں کے جو سیگون میں امریکا نواز حکومت کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔ پوری ویتنامی جنگ کے دوران کوئی ایسے خودکش حملے نہیں ہوئے جن میں غیر جنگجو افراد کی ہلاکتیں ہوئی ہوں مگر افغانستان میں اب تک ہزاروں معصوم لوگ طالبان کے خودکش حملوں میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ غیر ملکی قبضے کے خلاف ایک عوامی تحریک اپنے ہی لوگوں پر حملے نہیں کرے گی۔ ویتنام میں معاملہ یہی تھا، افغانستان میں ایسا نہیں ہے۔
ویت کانگ اور اس کے شمالی ویتنامی اتحادیوں کو کمیونسٹ چین اور سوویت یونین سے کھلم کھلا عسکری معاونت حاصل تھی مگر طالبان کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہے کیونکہ وہ اپنی مزاحمت کی بقاء کے لیے صرف منشیات کی فروخت سے حاصل کردہ پیسے اور امریکا نواز کابل حکومت کی افواج سے اسلحہ چھیننے تک محدود ہیں۔ طالبان کو ایران یا پاکستان کی عسکری امداد ملنے کی اطلاعات کے کوئی ثبوت موجود نہیں، اور ایسی کوئی بھی امداد کھلم کھلا تو بالکل بھی نہیں ہے۔
ویت کانگ اور شمالی ویتنام کی غیر ملکی قابضین کے خلاف جنگ کی بنیاد عزم، قوم پرستی، بہادری اور حب الوطنی پر قائم تھی جو کہ افغان جدوجہد میں موجود نہیں ہے۔ افغانستان میں سوویت فوجی مداخلت (دسمبر 1979ء سے فروری 1989ء تک) کے دوران سوویت افواج اور سوویت نواز کابل حکومت کے خلاف مزاحمت میں قومی اور مسلکی اختلاف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے معاشرے کے تمام طبقات شامل تھے۔
آج افغانستان میں امریکا مخالف مزاحمت پختون اکثریتی جنوبی و مشرقی صوبوں میں مجتمع ہے جبکہ تاجک، ازبک اور ہزارہ برادری جو افغان آبادی کا تقریباً نصف ہے، وہ پختون سربراہی میں موجود طالبان گروہوں کا حصہ نہیں ہیں۔
ویتنام کی قومی تحریکِ آزادی کی بنیاد نظریاتی تھی جبکہ اس میں قوم پرستانہ جوش و جذبہ شامل تھا، یہ معاملہ طالبان کے ساتھ نہیں جن کی مرکزی توجہ وہی نظام قائم کرنے پر ہے جو کہ 1996ء سے 2001ء تک ان کے دورِ اقتدار کے دوران تھا۔ اس نظام کو عورت مخالف، اقلیت مخالف اور اسلامی شریعت کی ان کی سطحی تشریح پر مبنی سمجھا جاتا تھا۔ آج اس نظام کے خاتمے کے 17 سال بعد بھی کئی افغان شہری طالبان کے اس ظالمانہ دورِ حکومت سے نالاں ہیں۔
ویتنام جنگ کا از سرِ نو جائزہ لینے سے ہماری نظر امریکا کے ناقابلِ شکست ہونے کے تصور کے بکھرنے پر بھی پڑتی ہے، کیونکہ 10 سال طویل مداخلت کے باوجود امریکا کو ویتنام جیتے بغیر چھوڑنا پڑا تھا۔
افغانستان میں ویتنام کے برعکس مستقبل قریب میں امریکی انخلاء کا کوئی امکان نظر نہیں آتا کیونکہ افغانوں کی اکثریت کی زیرِ سربراہی کوئی متحد قومی تحریکِ آزادی موجود نہیں ہے۔ اس بات کا کم ہی امکان ہے کہ واشنگٹن سنجیدگی سے انخلاء کی حکمتِ عملی پر غور کر رہا ہے۔ وہ افغانستان میں اسٹریٹجک، سیکیورٹی، سیاسی اور معاشی وجوہات کی بناء پر رہنا چاہتا ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ ویتنام کے برعکس افغانستان میں مزاحمتی تحریک ایک باقاعدہ حکمتِ عملی، جذبے، عوامی حمایت اور اتحاد سے عاری ہے۔ اس کی وجہ سے غیر ملکی قوتوں کو جنگ سے تباہ حال ملک میں اپنا قبضہ جمائے رکھنے کے لیے کافی جگہ مل جاتی ہے۔
جہاں تک امریکا اور دنیا کی بات ہے تو افغانستان واضح طور پر ویتنام سے مختلف ہے۔ جنگ کے اختتام کے 43 سال کے بعد زبردست اقتصادی نمو اور ترقی کی وجہ سے ویتنام واضح طور پر آج بہتر ہے جبکہ افغانستان اپریل 1978ء کے سوئر انقلاب (Saur Revolution) سے اب تک غریب، غیر ترقی یافتہ اور مسلسل حالتِ جنگ میں نظر آتا ہے۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان کی جانب سے صدر محمد داؤد خان کی حکومت کا تختہ الٹے جانے میں داؤد خان اور ان کے خاندان کے زیادہ تر افراد مارے گئے تھے۔
اس ‘انقلاب’ کے نتیجے میں نور محمد ترکئی کے بطور صدر ایک نئی حکومت وجود میں آئی جو 1979ء میں سوویت فوجی مداخلت کی پیشرو تھی۔ چنانچہ تمام انقلاب ایک جیسے نہیں ہوا کرتے۔