تحریک انصاف میں 4 ماہ قبل شامل ہونے والے سردار عثمان بزدار کے بارے یہ محاورہ سچ ثابت ہوا ہے کہ ’’اللہ تعالی جب دیتا ہے تو چھپڑ پھاڑ کر دیتا ہے‘‘۔ عبدالعلیم خان، شاہ محمود قریشی اور چوہدری محمد سرور جیسے قد آور سیاستدانوں اور پارٹی رہنماوں کے ہوتے ہوئے پنجاب کی وزارت اعلی کیلئے منتخب کیئے جانا ’’معجزہ‘‘ ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔
نیب کی جانب سے طلبی اور نوٹس کی ’’شیلنگ‘‘ ، ایک بڑے پراپرٹی ٹائیکون کی مبینہ مخالفت، ایک میڈیا ہاوس کی جانب سے یکطرفہ میڈیا ٹرائل ، شاہ محمود قریشی اینڈ کمپنی کی جانب سے تنظیمی دھڑے بندیوں اور الزامات کے نتیجہ میں ایک سوچی سمجھی اور’’ سنڈیکیٹڈ‘‘ مہم کے تحت عمران خان کے موسٹ فیورٹ اور پنجاب کی وزارت اعلی کیلئے کپتان کی اولین پسند عبدالعلیم خان کو وزارت اعلی کی دوڑ سے باہر کیئے جانے کے بعد بہت سے نام وزارت اعلی کیلئے سامنے آتے رہے لیکن عمران خان نے سردار صاحب کا نام پیش کر کے ایک بڑا سرپرائز دیا تھا۔
عمران خان ابتک متعدد بار سردار عثمان کے دفاع میں بیان دے چکے ہیں لیکن ان کے بیانات سے سردار عثمان کے بارے میں پیدا ہونے والے منفی تاثر میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ تحریک انصاف بالخصوص اسلام آباد میں عمران خان کے قریبی ذرائع یہ دعوی کر رہے ہیں کہ عمران خان بھی سردار عثمان بزدار کی ابتک کی کارکردگی سے بالخصوص اور پنجاب کابینہ کے بعض وزراء کی کارکردگی سے بالعموم مطمئن نہیں ہیں اور اس حوالے سے کپتان کی تشویش اور متبادل انتظامات پر غور و فکر میں اضافہ ہو رہا ہے۔
سردار عثمان بزدار ایک نفیس، مدھم رفتار اور صلح جو طبیعت رکھنے والے فرد ہیں اور ان کے کوئی خاص ذاتی عزائم بھی دکھائی نہیں دیتے، نہ ہی وہ سخت نوعیت کی پسند اور ناپسند پر یقین رکھتے ہیں لیکن انہیں بحیثیت وزیر اعلی اپنا تاثر مضبوط اور مثبت بنانے میں جو مشکل پیش آرہی ہے وہ ان کے وزراء کی کارکردگی کے ساتھ ساتھ بیوروکریسی کی جانب سے آرہی ہے۔
اس وقت پنجاب میں ایڈ منسٹریٹو سیکرٹریز، ڈپٹی کمشنرز اور ڈی پی اوز کی بہت بڑی تعداد نگران دور حکومت کی تعینات کردہ ہے ۔ عمران خان اگر ارباب شہزاد کی رائے کو مانتے ہوئے بیوروکریسی کو ضرورت سے زیادہ ’’فری ہینڈ‘‘ دینے کی پالیسی اختیار کر رہے ہیں تو وہ اپنی پنجاب حکومت کی ناکامی کو خود دعوت دے رہے ہیں کیونکہ موجودہ بیوروکریسی میں تبدیلی لائے بغیر پنجاب میں اچھی حکومت کی توقع رکھنا خود فریبی کے مترداف ہے۔
عمران خان نے آئی جی پنجاب تبدیل کردیا تھا اور گزشتہ روز یوسف نسیم کھوکھر کو چیف سیکرٹری پنجاب تعینات کرکے عمدہ افسر میدان میں لایا گیاہے۔ پنجاب چلانے کیلئے دبنگ شخصیت، غیر معمولی پیشہ ورانہ استعداد اور غیر جانبدار افسر کو چیف سیکرٹری کے عہدے پر لانا ناگزیر تھا، تحریک انصاف جتنی جلدی یہ تبدیلی لے آئی گی اتنا ہی اس کیلئے بہتر ہوگا۔
نیا چیف سیکرٹری وزیر اعلیٰ کی مشاورت سے بیوروکریسی کی نئی ٹیم بنائے اور ہر محکمہ کو درپیش چیلنجز کو مد نظر رکھتے ہوئے ایڈ منسٹریٹو سیکرٹریز کا تقرر کرے تو اس وقت عوام میں پنجاب حکومت کے حوالے سے مضبوط ہوتا منفی تاثر زائل ہو سکتا ہے، لیکن تحریک انصاف انصاف کے پاس اپنی غلطیاں سدھارنے کیلئے وقت بہت کم ہے۔
گزشتہ روز مسلم لیگ(ن) کے رکن اسمبلی اور شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی کور ٹیم کے قریبی رکن سمجھے جانے والے رانا مشہود نے اپنے ایک انٹرویو میں یہ دعوی کیا ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مسلم لیگ(ن) کے تعلقات بہتر ہو گئے ہیں جس کا کریڈٹ میاں شہباز شریف کو جاتا ہے۔ رانا مشہود کے مطابق بدلتی صورتحال میں آئندہ چند ماہ کے دوران پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت بن سکتی ہے۔
رانا مشہود کا یہ بیان نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور بادی النظر میں زبان رانا مشہود کی ہے لیکن الفاظ میاں شہباز شریف کے ہیں اور یہ بیان ایک حکمت عملی کے تحت جاری کروایا گیا ہے۔
اس بیان کو دو مختلف زاویوں سے جانچنے کی ضرورت ہے اگر رانا مشہود کا بیان درست تسلیم کیا جائے تو پھر اسکی تصدیق گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران تحریک انصاف کی وفاقی و پنجاب حکومت کے خلاف چلائی جانے والی مخصوص مہم اور عدالتوں کی جانب سے کی جانے والی’’کھنچائی‘‘ سے ہو سکتی ہے، نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن(ر) صفدر کی ضمانتوں کو بھی اس کی تائید کیلئے پیش کیا جا سکتا ہے۔
جہانگیر ترین کی اپنی نا اہلی کے خلاف نظر ثانی کی درخواست کو مسترد کیئے جانے کو بھی اس تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے اور یہ تمام صورتحال رانامشہود کے بیان کی تائید کرتی ہے لیکن رانا مشہود کے بیان کا دوسرا اور سب سے قابل غور رخ ہے جس میں اس بیان کی ٹائمنگ بہت اہم ہے۔
14 اکتوبر کو لاہور سمیت مختلف علاقوں میں ضمنی الیکشن ہو رہے ہیں۔ لاہور میں این اے131 میں ن لیگ کے مرکزی رہنما خواجہ سعد رفیق اور این اے 124 میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ضمنی الیکشن لڑ رہے ہیں ۔ مسلم لیگ (ن) کی میڈیا مینجمنٹ ہمیشہ سے یکتا اور منفرد رہی ہے اور تحریک انصاف و پیپلز پارٹی سمیت کوئی بھی سیاسی جماعت اس معاملے میں ن لیگ کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
اس وقت تحریک انصاف کی نئی نویلی حکومت کے خلاف منفی تاثر پھیلانے میں حکومت کی اپنی غلطیاں اور پالیسیاں تو سبب ہے ہی لیکن انہیں ن لیگ کا میڈیا سیل بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ذرائع سے جب گزشتہ روز رانا مشہود کے بیان بارے دریافت کیا تو ان کا جواب بہت سادہ لیکن واضح تھا کہ رانا مشہود اگر سچ کہہ رہے ہیں تو وہ قوم کو یہ بھی بتا دیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے کس اہم فرد سے ان کی بات ہوئی ہے۔
پنڈی ہیڈ کوارٹر کے دیگر ذرائع بھی رانا مشہود کے بیان کی تائید نہیں کر رہے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بیان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف پھیلنے والے منفی تاثر کو مزید مضبوط کرنے اور ضمنی الیکشن میں ووٹر کو کنفیوژ کرنے کی سوچی سمجھی چال ہے۔ ماشاء اللہ ہمارے بہت سے اینکر آج بھی’’مشرف بہ شریفان‘‘ ہیں لہذا اس بیان کو مزید سجا سنوار کر پیش کیا جائے گا۔
تحریک انصاف کے چیئرمین اور وزیر اعظم عمران خان کو اس تمام صورتحال پر ہنگامی طور پر غور کرتے ہوئے اہم فیصلے کرنا ہوں گے۔کپتان کی نیت میں کوئی فتور نہیں وہ اپنے منشور پر عملدرآمد کرنے میں بھی سنجیدہ اور مخلص ہے لیکن کپتان کا مسئلہ یہ ہے کہ نیا پاکستان تراشنے کیلئے اس کے پاس شیشے کے بنے ہتھوڑے اورچھینیاں ہیں۔کپتان کو سیاسی اور انتظامی ٹیم میں تبدیلیوں کے حوالے سے اہم فیصلے کر لینے چاہئیں ۔
پنجاب کی بیوروکریٹک ٹیم تبدیل کرنے کے بعد سردار عثمان بزدار کو پرفارم کرنے کا موقع دینا چاہیئے، ممکن ہے وہ ’’کلک‘‘ کر جائیں بصورت دیگر خان کے پاس متبادل آپشن تو ہمہ وقت دستیاب ہیں اور کپتان کا ماضی گواہ ہے کہ عمران خان بڑے فیصلے کرنے اور پھر انہیں بدلنے کے حوالے سے کسی دبائو یا میڈیا تنقید سے نہیں ڈرتا۔