ایسے ہوتے ہیں مسلمان
تھامس نامی شخص کے پرائیویٹ بلاگ پر شیئر اس کے تاثرات شائع کئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق تھامس مسجد کے بالمقابل رہتے رہتے مسلمانوں اور اسلام کے متعلق اتنا کچھ سیکھ گیا جو حیران کن ہے۔ اپنے تاثرات میں تھامس نے لکھا کہ وہ اسلام سے متعلق خبروں پر تھوڑے ابہام کا شکار تھے لیکن مسجد میں مسلمانوں کے معمولات نے تمام ابہام دور کردیا۔
تھامس کے مطابق کسی بھی مسجد میں وسیع پارکنگ نہیں ہوتی لیکن مسلمانوں کے انتظام کے طریقے نے انہیں بہت متاثر کیا۔ وہ دیکھتے ہی دیکھتے جگہ بناتے ہیں اور پھر وہاں گاڑیاں کھڑی کردیتے ہیں۔مسلمانوں کی دوسری بڑی خوبی ہے کہ وہ اگر کسی کو کچھ غلط کرتے دیکھ لیں تو بھی پردہ پوشی کرتے ہیں۔ مسلمان بہت زیادہ دعا بھی کرتے ہیں ۔گھر سے کسی بھی کام کے لئے نکلتے وقت سلامتی کی دعا انتہائی خوشگوار کن لمحہ ہوتا ہے۔ مسلمان اس قدر حساس اور نرم دل ہیں کہ اپنے سامنے کچھ غلط ہوتا دیکھنے کے باوجود شفقت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے،مسلمان مثالی ہمسائے بھی ثابت ہوتے ہیں جو ہر دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں۔
اس نے مزید لکھا کہ عام طور پر ہر نماز کے بعد آدھا کپ چائے پینے کی عادت بھی خوشگوار تجربہ ہے۔برطانوی شہریوں کی طرح مسلمان بھی اپنی بیٹی کو دنیا کی ذہین ترین لڑکی سمجھتے ہیں خواہ وہ چھ برس کی ہی کیوں نہ ہوجبکہ بیٹوں سے متعلق ان کا رویہ ذرا سا مختلف ہوتا ہے۔نوجوان مسلمان لڑکیاں حقیقت میں بہت ہی پرجوش ہیں۔
تھامس کے مطابق مسلمان غیر مذہب اور مخالف عقیدے کے لوگوں سے بھی تپاک سے ملتے ہیں،اپنا ایک واقعہ بتاتے ہوئے تھامس نے لکھا کہ جب جنگ زدہ شامیوں کے لئے اپنے کپڑوں کے جوڑے عطیہ کئے تو چندہ جمع کرنے والوں نے خلوص سے شکریہ ادا کیا۔مسلم گھرانوں میں ایک شادی وغیرہ کی تقریبات کے انتظامات کے لئے ایک خالہ یا پھوپھی کی موجودگی بھی زبردست روایت ہے۔رمضان اورعید کے دنوں میں مسلمانوں کی اتنی تعداد مسجد جاتے ہوئے گلیوں سے گزرتی ہے کہ منشیات فروش وہ جگہ ہی چھوڑ دیتے ہیں ۔مسلمان مائیں بھی اپنے بچوں کی تربیت کے حوالے سے خاصی حساس ہوتی ہیں اور انہیں حلال اور حرام میں تمیز سکھانا اپنا فرض سمجھتی ہیں۔