بلاگ

کیا ہم قابلیت کو سمجھنے کے قابل ہیں؟

انفرادی اور اجتماعی اخلاقیات سے مالا مال ہوتا ہے اور اسی معاشرے کا ہر فرد اور ادارہ جرات اور اصول زندگی کی روشن مثال ہوتا ہے۔ ذرا غور کیجئے جس ماحول اور فضا سے ہم لوگ گزر رہے ہیں کیا اس سے ہم کوئی صحت مند معاشرہ اپنی آنے والی نسلوں کو دے سکتے ہیں؟ ایسا معاشرہ جس کے بدلے آنیوالی نسل ہمیں عزت و وقار سے یاد کریں؟ جب کہ صورت حال یوں ہے کہ ہم جس حال میں رہ رہے ہیں وہ ہمیں بہتر مستقبل کی امید نہیں دکھا رہا۔

یہ روشن حقیقت ہے کہ اچھا ماضی اور حال ہی ایک اچھے مستقبل کی ضمانت ہوتا ہے، لیکن لگتا ہے ہمیں اس بات کی کوئی فکر نہیں ہے۔ ہم اگر پچھلی تاریخ دیکھیں اور غور کریں کہ ہم ایسا کیا کرسکتے ہیں جس کی وجہ سے بہتر مستقبل تعمیر کیا جاسکتا ہو تو یقین کریں ہمیں لگتا ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں جس پر فخر کیا جاسکے۔ یہ اشارہ کسی فرد یا ادارے کی طرف اشارہ نہیں ہے۔ یہ تو ایسا شعور ہے جو ہماری قوم کو ایک نئی نوید فکر دے رہا ہے۔

اس سے زیادہ فکر کی بات یہ ہے کہ ہم سب لوگ جس ماحول کا حصہ ہیں، اس سے جس انداز کی تہذیب جنم لے رہی ہے، یہ سوچ کر ہی خوف آتا ہے اور زیادہ خوف کی بات یہ ہے کہ ہم ایسے ہی حال اور ماضی قریب میں خوش ہیں۔ ہر کوئی انفرادیت کے نظریہ پر کاربند ہے اور کل کی فکر سے بالکل ہی انکاری ہے، اور دوسروں کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔

اس سارے ماحول نے ہمیں قابلیت سے محروم کر رکھا ہے۔ اب ہر طرف اور ہر پیشے میں ہمیں اوسط قابلیت کا سامنا ہے۔ اعلیٰ قابلیت اب زمانہ قدیم کی بات لگتی ہے۔ دانشور اب ناپید ہوگئے ہیں اور مداری آپ کو گلی گلی میں نظر آر ہے ہیں جو نہ تیتر ہیں اور نہ بٹیر۔ ہاں دکانیں بڑی اونچی ہیں پر پکوان ان کے پھیکے ہیں۔ باشعور لوگ جو اب گنتی کے ہیں۔ یہ وہ سارے عوامل ہیں جن کو دیکھتے ہوئے یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ ہم شاید ترقی یافتہ قوم نہ بن سکیں لیکن ہم ’’ترقی مار‘‘ قوم کا ٹائیٹل ضرور جیت لیں گے۔

ایک بڑی وجہ ہماری کمزوری کی یہ بھی ہے کہ ہم نے قابلیت کو کبھی قابل ہی نہیں سمجھا۔ ہمارے نزدیک ہر چیز کا مقابل موجود ہے۔ اگر کوئی چیز ہمارے ملک میں اچھی نہیں بنتی تو ہم اس کو اچھا بنانے میں وقت ضائع نہیں کرتے بلکہ اس سے بہتر چیز کو درآمد کرلیتے ہیں اور اگر چیز درآمد نہیں ہوسکتی تو ہم خود باہر چلے جاتے ہیں۔

نہایت افسوس ہوتا ہے جب دیکھتے ہیں کہ وہ قومیں جو ہم سے بعد میں آزاد ہوئیں آج ان قوموں کے وقار اور قابلیت سے پوری دنیا متاثر ہے۔ یہ ان قوموں کی جیت ہے کہ ان کے لیڈران نے ایک ایسے ماحول کی نشوونما کی جہاں قابلیت پروان چڑھی جس نے زندگی اور فکر کو فروغ دیا اور تحریک بخشی جس سے انہوں نے اپنی اپنی تہذیبوں کا نام روشن کرکے اعلیٰ زمانہ تخلیق کیا۔

اس میں صداقت نظر آرہی ہے کہ ہماری موجودہ نسل احمقوں کے ہاتھوں تربیت پا رہی ہے جن کے پاس بڑی بڑی ڈگریاں تو ہیں لیکن ان کی قابلیت ایک سوالیہ نشان ہے۔ اس سے زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ ہماری آئندہ نسل بھی ایسے ہی یا ان سے بھی بڑے احمقوں کے ہاتھوں تربیت پائے گی۔

اللہ تعالیٰ سے یہی دعا ہے کہ ہمیں قابلیت کو سمجھنے کے قابل کرے اور زندگی بہتر معاشرتی اصولوں پر گزارنے کے قابل بنائے۔

’’آمین‘‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close