بلوچ سپرنگ کی غلیل
ٹیم مودی کی جانب سے بلوچستان اور کشمیر کو ایک پلڑے میں رکھنے کا فیصلہ بھی کچھ مفروضوں کی بنیاد پر کیا گیا ہوگا۔
شاید یہ سوچا گیا ہو کہ پاکستان کی توجہ کشمیر سے بٹانے کے لیے ایک نئی مصروفیت تھما دی جائے۔ چاروں صوبوں میں سے اگر کسی ایک صوبے میں وفاقِ پاکستان سے علیحدگی کی خواہش سب سے زیادہ ہے تو وہ بلوچستان کا بلوچ اکثریتی حصہ ہے۔
پچھلے دس برس سے چاروں صوبوں میں سے جس صوبے کے طول و عرض میں مسلسل فوجی و نیم فوجی کارروائی جاری ہے وہ بلوچستان ہے۔ سب سے زیادہ لوگ اس صوبے سے غائب ہوئے ہیں۔ سب سے زیادہ مسخ شدہ لاشیں یہاں سے ملی ہیں۔
یہ بھی سوچا گیا ہوگا کہ بلوچستان میں اس وقت ایک سے زائد لڑائیاں جاری ہیں۔وفاقی سکیورٹی دستے بمقابلہ الٹرا قوم پرست مسلح بلوچ تنظیمیں، پاکستان نواز بلوچ تنظیمیں بمقابلہ آزادی پسند بلوچ تنظیمیں، آزادی پسند بمقابلہ آزادی پسند، فرقہ وارانہ و جہادی تنظیمیں بمقابلہ غیر سنی نسلی و مذہبی قومیتیں،
داعش بمقابلہ القاعدہ بشمول افغان و پاکستانی طالبان ۔
نیز ٹیم مودی نے یہ بھی سوچا ہوگا کہ جس نسلی گروہ میں افغانستان، افغان طالبان یا افغان مہاجرین کے لیے نرم گوشہ پایا جاتا ہے وہ بلوچستان کے پشتون ہیں۔
لہذا بلوچستان ایک مثالی چولہا ہے جس پر جارحانہ علاقائی پالیسی کی دیگ چڑھا کے پاکستان کو آگے پیچھے سے انگیج کیا جا سکتا ہے۔
مودی کی نئی حکمتِ عملی کے معماروں نے شاید یہ بھی سوچا ہو کہ پاکستان کا کشمیر کو اپنی شہہ رگ کہنا ایک تاریخی رومانی تعلی ہے۔ مگر سنہ 2016 کے پاکستان کی اصل شہہ رگ چین پاک اکنامک کوریڈور ہے اور اس شہہ رگ کو بچانے کے لیے گھبرایا ہوا پاکستان بلوچوں کو جتنا دبائےگا اتنے ہی وہ سپرنگ کی طرح اچھلیں گے اور بھارت اس سپرنگ کی غلیل بنا سکتا ہے۔
ایسی صورت میں پاکستان کو کوریڈور کا منصوبہ بچانے کے لیے بلوچستان یا بلوچوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو پاکستان بلوچستان کا انتخاب کرےگا۔ چنانچہ بلوچ اپنی نسلی و علاقائی بقا کے لیے ان قوتوں کی جھولی میں آجائیں گے جو پاکستان کا اقتصادی ٹینٹوا دبانا چاہتے ہیں۔
بھارت کو شاید یہ بھی امید ہو کہ مشرقی پاکستان کے ڈسے کو بلوچستان کی رسی سے ڈرایا جا سکتا ہے۔ لیکن یہاں پاکستان کو کچھ قدرتی آسانیاں میسر ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ مشرقی پاکستان میں نوے فیصد آبادی بنگالی تھی اور نوے فیصد بنگالی عوامی لیگ کے ساتھ تھے۔ مگر بلوچستان میں نسلی معاملہ آدھوں آدھ اور سیاسی ایکا نہ ہونے کے برابر ہے اور وفاق و صوبے کے درمیان ہزار میل کا فاصلہ بھی حائل نہیں اور یہ کہ مشرقی پاکستان تین جانب سے بھارت سے گھرا ہوا تھا۔
افغانستان میں اتنا تپڑ نہیں کہ وہ بلوچستان میں فیصلہ کن مداخلت کر سکے اور ایران میں بھلے کسی کی حکومت ہو، وہ ہرگز نہیں چاہے گی کہ پاکستانی بلوچستان الگ ہو، کیونکہ اس کے فوراً بعد ایرانی بلوچستان میں یہ سنائی دے گا کہ ہم کیوں نہیں۔
لہذا جوہری ہتھیاروں سے لیس بھارت اور پاکستان کے پاس ایک ہی طریقہ ہے۔ ایک دوسرے کو چرکے پے چرکہ لگاتے رہیں حتٰی کہ کوئی ایک قلتِ خون کا شکار ہو کر گر پڑے۔
مگر بلوچستان میں جو کچھ تھا، ہے یا ہوگا سب غیروں کا ہی کیا دھرا ہے یا اپنوں نے بلوچستان کو ایسی جگہ کھڑا کردیا ہے کہ کوئی بھی راہ چلتا اس سے بےتکلف ہو سکے؟
کتنے بچے ہیں جو مسلسل مار پیٹ سہتے رہیں مگر گھروں سے نہ بھاگیں یا بھاگنے کے بارے میں نہ سوچیں؟ بھلے انجام کچھ بھی ہو۔
ایسے بچوں کو کیسے روکا جاتا ہے؟ پاؤں میں زنجیر ڈال کے یا کمر میں ہاتھ ڈال کے ؟