سعودی عرب کی جانب سے 2 ہفتوں سے زائد تک انکار کے بعد بالاخر تسلیم کرلیا گیا کہ ترکی کے شہر استنبول میں سعودی قونصل خانے میں صحافی جمال خاشقجی کو قتل کیا گیا، تاہم اس اعتراف کے بعد سب کی نظریں ترکی پر لگی ہیں کہ آیا وہ قتل کے محرکات اور ثبوتوں کو دنیا کے سامنے پیش کرے گا یا نہیں۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق سعودی اٹارنی جنرل کے دفتر سے ذرائع ابلاغ کو جاری بیان میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ 59 سالہ صحافی جمال خاشقجی جھگڑے کے دوران مارے گئے۔
سعودی عرب کی یہ وضاحت ایک تیزی سے یوٹرن تھا کیونکہ اس سے قبل ریاست اس بات پر بضد تھی کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے سخت ناقد جمال خاشقجی 2 اکتوبر کو سعودی قونصل خانے میں داخل ہونے کے بعد واپس چلے گئے تھے۔
اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کا بیان اس معلومات سے بھی متضاد تھا جس میں ترکی کے نامعلوم سیکیورٹی ذرائع نے بتایا تھا کہ جمال خاشقجی پر پہلے تشدد کیا گیا اور بعد میں انہیں قونصل خانے کے اندر ہی قتل کردیا گیا۔
ترک قدامت پسند اخبار ’ینی شفق‘ کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ انہوں نے وائس ریکارڈنگ سنی ہے جس میں جمال خاشقجی کو تفتیش کے دوران تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے سنا جا سکتا ہے اور پہلے ان کی انگلی کاٹی گئی اور بعدازاں انہیں زندہ ہی ٹکڑوں میں تبدیل کردیا گیا۔
بعد ازاں سعودی عرب نے وضاحتی بیان میں جمال خاشقجی کے قتل کا اعتراف کیا اور کہا کہ 18 افراد کو حراست میں لیا گیا جبکہ محمد بن سلمان کے 2 قریبی ساتھیوں اور 3 دیگر انٹیلی جنس حکام کو برطرف کیا گیا۔
تاہم یہ اقدام ریاض پر بڑھتے ہوئے دباؤ اور احتساب کے لیے بین الاقوامی مطالبات کو کم کرنے کے لیے تھوڑا کم تھا۔
ایک طرف جہاں ترکی کی جانب سے کہا گیا کہ وہ اس معاملے کو ’چھپانے‘ کی اجازت نہیں دے گا تو وہیں جرمنی نے سعودی اقدام کو ’ناکافی‘ قرار دیا جبکہ اقوام متحدہ سے ’شفاف تحقیقات‘ کی ضرورت پر زور دیا۔
دوسری جانب دائیں بازو کے گروہوں نے اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ تحقیقات میں شامل ہو، ساتھ ہی وہ جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے ’سعودی ہٹ دھرمی‘ پر پریشان تھے۔
تاہم قتل کے اعتراف کے بعد سعودی عرب کے اہم اتحادی برطانیہ نے کہا کہ وہ سعودی رپورٹ اور ’اگلے اقدامات‘ کو دیکھ رہا تھا جبکہ مشرق وسطیٰ میں سعودی اتحادی مصر، بحرین، متحدہ عرب امارات اور یمن کی حکومت نے محمد بن سلمان کے اقدام کی تعریف کی تھی۔
قربانی کے بکرے کی تلاش
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جمال خاشقجی کے معاملے پر بڑھتے ہوئے غم غصہ کا جواب دینے کے لیے سعودی عرب نے ’قربانی کے بکرے‘ تلاش کیے تاکہ ہفتوں سے جاری طویل بحران کا خاتمہ اور سعودی اعلیٰ قیادت خاص طور پر محمد بن سلمان پر سے الزامات کا رخ موڑا جاسکے۔
واضح رہے کہ میڈیا رپورٹ کے دعوے کے بعد سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا اس کیس میں قریبی تعلق سامنے آرہا تھا اور نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ جمال خاشقجی کے لیے 15 افراد کی ’قتل کی ٹیم‘ دو چارٹرڈ طیاروں کے ذریعے استنبول آئی تھی، جن میں سے ایک شخص محمد بن سلمان کا ’قریبی ساتھی تھا‘ جبکہ 3 افراد کا تعلق سعودی ولی عہد کی سیکیورٹی سے تھا۔
اس سارے معاملے میں جہاں ایک طرف قربانی کے بکرے ڈھونڈے گئے تو وہی ترکی کا کردار بھی کافی اہم ہے۔
جمال خاشقجی کی گمشدگی کے بعد نامعلوم ترک حکام نے متعدد بار سعودی صحافی کے قتل کی تفصیلات کا ذکر کیا اور کچھ نے یہ تفصیلات میڈیا کو بھی بتائیں۔
اس حوالے سے ایک ترک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر الجزیرہ کو بتایا کہ رواں ہفتے کے آغاز میں ترک انتظامیہ کے پاس 11 منٹ کی ایک آڈیو ریکارڈنگ تھی، جس میں قونصل خانےمیں خاشقجی کے قتل کی نشاندہی ہوتی تھی۔
ترک حکام کے پاس ثبوت پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مطالبہ کیا تھا کہ ’اگر ثبوت ہیں‘ تو ترک حکام انہیں فراہم کریں۔
ادھر تجزیہ کار سلطان برکت کا کہنا تھا کہ یہ آڈیو لیکس سعودی حکومت کو ان کے مؤقف سے پیچھے ہٹانے میں مدد کرسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جہاں ایک طرف سعودی عرب ’قربانی کے بکرے‘ ڈھونڈ رہا ہے تو وہیں اگر ترکی مبینہ ثبوت سامنے لے آتا ہے تو یہ سعودی فرماں رواں شاہ سلمان کے لیے مشکل ہوگا کہ وہ اپنے بیٹے محمد بن سلمان کے ساتھ کھڑے ہوں۔
تاہم سلطان برکت کا کہنا تھا کہ ترکی کو ثبوت پیش کرنے میں ممکنہ طور پر ہچکچاہٹ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ ایسی صورتحال کا مطلب یہ ہے کہ آیا ترکی کی حکومت نے خود اس آڈیو کو ٹیپ کیا یا سعودی قونصل خانے میں کچھ وقت کے لیے دخل اندازی کی‘ اور اس انکشاف سے ترکی کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات خراب ہوسکتے ہیں۔
آڈیو اور ویڈیو لیکس
ترک امور کے ماہر اور سابق امریکی سفارتکار میتھیو بریزا کا کہنا ہے کہ اہم عنصر یہ ہے کہ کیا ترکی مبینہ آڈیو اور ویڈیو کو جاری کرے گا، جو آئندہ کچھ روز میں امریکا کے ردِ عمل کا باعث ہوگا کیونکہ اگر ٹرمپ اس قتل پر ’ہٹ دھرمی‘ دکھانے کی کوشش کریں گے تو ترکی اس معلومات کو سامنے لے آئے گا۔
انقرہ انسٹیٹیوٹ میں ریسرچ ڈائریکٹر عثمان سرط کا کہنا تھا کہ مجھے لگتا ہے کہ ترکی تب تک اپنی تحقیقات جاری رکھے گا جب تک وہ اس بات کو سامنے نہیں لے آتا کہ اس قتل کے احکامات کے پیچھے کون تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’ایسا اس لیے کیا جائے گا کیونکہ ’ترکی غیر ملکیوں کو یہ دکھانا چاہتا ہے کہ استنبول اور ترکی سیاحوں کے لیے ایک محفوظ جگہ رہے گی اور اگر طاقتور لوگوں کو دوسروں پر الزام لگا کر آزاد رہنے کی اجازت دی جائے گی تو وہ دنیا کو کیسے ثابت کرے گا کہ ترکی ایک محفوظ جگہ ہے‘
علاوہ ازیں سعودی عرب کے اعتراف کے بعد ترک حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی (اے کے پارٹی) کے ترجمان عمر سالک کا کہنا تھا کہ ترکی پہلے سے کسی پر الزام نہیں لگاتا لیکن ہم کسی چیز کے چھپانے کو تسلیم نہیں کرتے۔
اے کے پارٹی کے ڈپٹی سربراہ نعمان کرتلماس نے کہاکہ ترکی خاشقجی کی موت کے ثبوت کو دنیا کے ساتھ شیئر کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔
جمال خاشقجی کا معاملہ
خیال رہے کہ سعودی شاہی خاندان اور ولی عہد محمد بن سلمان کے اقدامات کے سخت ناقد سمجھے جانے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی گزشتہ ایک برس سے امریکا میں مقیم تھے تاہم 2 اکتوبر 2018 کو اس وقت عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہے جب وہ ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے میں داخل ہوئے لیکن واپس نہیں آئے، بعد ازاں ان کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا گیا کہ انہیں قونصل خانے میں ہی قتل کر دیا گیا ہے۔
صحافی کی گمشدگی پر ترک حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے استنبول میں تعینات سعودی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا خدشہ پیدا ہوا تھا۔
تاہم ترک ذرائع نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ سعودی صحافی اور سعودی ریاست پر تنقید کرنے والے جمال خاشقجی کو قونصل خانے کے اندر قتل کیا گیا۔
سعودی سفیر نے صحافی کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے تفتیش میں مکمل تعاون کی پیش کش کی تھی۔
تاہم 12 اکتوبر کو یہ خبر سامنے آئی تھی کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی پر آواز اٹھانے والے 5 شاہی خاندان کے افراد گزشتہ ہفتے سے غائب ہیں۔
اس کے بعد جمال خاشقجی کے ایک دوست نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی صحافی شاہی خاندان کی کرپشن اور ان کے دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔
سعودی صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی کے معاملے پر امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے براہِ راست ملاقات بھی کی تھی۔
اس کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان دیا تھا کہ اگر اس معاملے میں سعودی عرب ملوث ہوا تو اسے سخت قیمت چکانا پڑے گی۔
17 اکتوبر کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی سربراہ کرسٹین لاگارڈے نے معروف صحافی کی مبینہ گمشدگی کے بعد مشرق وسطیٰ کا دورہ اور سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت ملتوی کردی تھی۔
اسی روز سعودی صحافی خاشقجی کی گمشدگی کے بارے میں نیا انکشاف سامنے آیا تھا اور کہا گیا تھا کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر زندہ ہی ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا ۔
بعد ازاں گزشتہ روز سعودی عرب کے جلاوطن شہزادے خالد بن فرحان السعود نے الزام لگایا تھا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی مبینہ گمشدگی کے پیچھے ولی عہد محمد بن سلمان کا ہاتھ ہے اور سعودی حکمراں کسی نہ کسی پر الزام دھرنے کے لیے ‘قربانی کا کوئی بکرا’ ڈھونڈ ہی لیں گے۔
دریں اثناء 20 اکتوبر کو سعودی عرب نے باضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سعودی قونصل خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کردیا گیا۔