آج ’کیوٹ‘ لگنے والی یہ حرکت معاشرے کو کتنا نقصان پہنچا سکتی ہے؟
تحریر: طلحہ سعید قریشی
ہم جب چھوٹے تھے تو گھر میں امّاں ابّا کا گھر میں رعب ہوا کرتا تھا۔ مجھے آج بھی یاد ہے زندگی میں پہلی مرتبہ مجھے امّاں سے مار اپنے کزن کو ’اوئے‘ کہنے پر پڑی تھی۔ ویسے تو ٹی وی دیکھنے کا ایک مخصوص ٹائم مقرر تھا اور اس مقررہ وقت پر بھی صرف کارٹون نیٹ ورک ہی دیکھنے کی اجازت تھی۔ جب کچھ بڑے ہوئے تو کبھی کبھار ٹی وی پر کوئی گانا یا فلم لگا لیتے تھے، لیکن جیسے ہی پتہ چلتا بابا گھر پہنچ گئے ہیں تو فوری طور پر یا تو ٹی وی بند کردیتے یا آواز اتنی آہستہ کردیتے کہ خود کو بھی آواز نہ آئے۔
یہ اس دور کی باتیں ہیں جب گھر میں بڑے بھائی کو بتایا جاتا تھا کہ وہ ٹرین کے انجن کی مانند ہے جس نے چھوٹے بہن بھائیوں کو لیکر چلنا ہے۔ وہ بڑا بھائی بھی اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو بیٹا یا بچے کہہ کر پکارتا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ وقت کی بے رحم موجیں یہ اقدار اور یہ رکھ رکھاو بھی اپنے ساتھ بہا کر لے گئیں۔
کچھ روز پہلے ایک کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا جس میں ایک بچہ مبینہ طور پر اپنی استانی کو ’اوئے‘ کہہ کر پکار رہا تھا۔ استانی صاحبہ اس سے گفتگو بھی کر رہی تھیں اور اس بچے کی ویڈیو بھی بنا رہی تھیں۔ بچہ بستہ مانگ رہا تھا اور اس کی استانی اس بات پر مصر تھیں کہ بستہ ان کا اپنا ہے اور اس پر اس بچے کا نام نہیں لکھا ہوا تھا۔
بچہ استانی کو چھٹی بند کرنے کی دھمکیاں بھی دیتا رہا اور اس کی ٹیچر اس سارے معاملے کو فلم بند کرتی رہیں۔ استاد، جس کا کردار بچے کی اصلاح کرنا ہوتا ہے، نے مبینہ طور پر یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر ڈالی جہاں سے یہ شترِ بے مہار کی طرح وائرل ہوگئی۔
پھر سوشل میڈیا پر کچھ لوگ بچے کی ‘کیوٹنس’ پر قربان جا رہے تھے تو کچھ نے اس بچے کی میمز بنا کر اپلوڈ کرنا شروع کردیں۔ معاملہ یہیں نہیں تھما، بلکہ اس بچے کو مختلف چینلز کے مارننگ شوز میں مدعو کیا جانے لگا۔ قربان جاؤں ان والدین ہر بھی جو اپنے بچے کی اصلاح کے بجائے اسے مختلف چینلز کی سیر کروانا شروع ہوگئے، جس کے بعد سوشل میڈیا پر اس کلپ کو مزید پھیلایا گیا۔
میرا سوال یہ ہے کہ کیا ایسے کلپس کا فیس بک پر موجود بچوں پر مثبت اثر ہوگا؟ کیا گھروں میں ٹی وی پر اس بچے کو دیکھنے والے بچے اپنے بڑوں کو ’اوئے‘ کہہ کر مخاطب نہیں کریں گے؟ ہمیں اپنے بچوں کو بتانا ہوگا کہ وہ کہاں غلط ہیں، ہمیں اپنے بچوں کو سکھانا ہوگا کہ کسی بڑے چھوٹے سے کیسے بات کرنی ہے، ہمیں اپنے بچوں کو اخلاقیات کی تربیت دینی ہوگی۔
معاشرے میں عدم برداشت کے بڑھتے ہوئے واقعات کی بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے گھر جو بچوں کی پہلی درسگاہ ہوتے ہیں، وہیں کا ماحول ان کے ذہن پر بُرے طریقے سے اثر انداز ہوتا ہے۔ والدین بچوں کے سامنے جس طرح کا رویہ اپناتے ہیں بچے اسی کا اثر لیتے ہیں اور اسی سے سیکھتے ہیں۔
عموماً دیکھا جاتا ہے کہ جو لوگ گھر میں زیادہ لڑائی جھگڑا کرتے ہیں، ان کے بچوں پر اس سب کا بہت اثر پڑتا ہے اور وہ بھی چڑچڑے ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح اگر آپ بچوں کے سامنے سگریٹ پیئیں گے تو اس بات کے امکانات زیادہ ہوجاتے ہیں کہ وہ بھی سگریٹ کی عادت میں مبتلا ہوجائیں گے۔ آپ بچے کو اگر فون تھما کر یہ بولیں گے انہیں بولو پاپا گھر پر نہیں ہیں تو کل وہ بچہ اسی طرح آپ سے بھی جھوٹ بولے گا۔
اسی طرح بچے اپنے اساتذہ کے رویے سے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ اگر اسکول یا مدرسوں میں بچوں کو مارا پیٹا جائے گا تو اس کے ان پر منفی اثرات ہی مرتب ہوں گے۔ جب وہ اپنی اس درسگاہ سے نکلیں گے تو سلجھے ہوئے انسان کے طور پر نہیں بلکہ متشدد سوچ کے مالک بن کر نکلیں گے۔ ہمیں ان بچوں کی حفاظت کرنی ہے، ہمیں انہیں معاشرے کا بدتمیز فرد نہیں بنانا۔ ہمیں اپنے بچوں کو اچھی اقدار ورثے میں دیکر جانی ہیں۔
بچوں کی یہ حرکتیں جو آج آپ کو ‘کیوٹ’ لگتی ہیں کل یہی اس کی فطرت کا حصہ بن جائیں گی۔ خدارا اپنا قبلہ درست کیجیے اور اپنے اپنے گھروں میں موجود بچوں کی تربیت پر ایک بار پھر غور کیجیے کہ آپ انہیں کیسا انسان بنا رہے ہیں۔ لاہور جیسے شہر میں کرائم رپورٹنگ کرتے ہوئے میں نے دیکھا ہے کہ وہ نوجوان جرائم میں زیادہ ملوث ہوتے ہیں جن کے گھروں میں مسائل چل رہے ہوں یا جن کے والدین کا آپس میں رشتہ مضبوط نہ ہو۔
ضروری نہیں کہ مالی مسائل ہی انسان کو جرائم کی دنیا میں قدم رکھنے پر مجبور کریں بلکہ گھروں میں چلنے والی نوک جھونک یا لڑائیاں بھی انسانی ذہن کو اس قدر منتشر کرسکتی ہیں کہ وہ اس تاریک راہ پر چل نکلے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کی تمام ضروریات کا خیال رکھ رہے ہیں، ان کو اچھے اسکولز میں پڑھا رہے ہیں، اسکولنگ کے ساتھ ساتھ ان کی ٹیوشن پر بھی ایک اچھی خاصی رقم خرچ کر رہے ہیں، لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ تربیت کا فرض اچھے اسکول میں بھیجنے یا ٹیوشن پر خرچہ کرنے سے ہی ادا نہیں ہوجاتا۔
والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں۔ ان سے دوستی کریں اور دوستی کی فضا میں ان کی تربیت کریں۔ ان کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر، ان کی حرکات پر غور کریں۔ خیال رکھیں کہ کہیں آپ کے بچے کے رویے میں غصہ تو نہیں بڑھ رہا؟
اس چیز پر غور کریں کہ کہیں آپ کے بچے چڑچڑے تو نہیں ہو رہے۔ اگر ایسا کچھ محسوس کریں تو فوری ایسی وجوہات پر غور کریں جو ان کے ایسے رویے کا باعث بن رہی ہیں۔ اس سے ناصرف آپ کے اور آپ کے بچوں کے درمیان رشتہ مزید خوبصورت ہوجائے گا بلکہ آپ کے بچوں میں خود اعتمادی بھی بڑھے گی اور وہ اپنی چھوٹی چھوٹی باتیں بھی آپ سے شیئر کرنا شروع کردیں گے۔
اعتماد کا رشتہ بنے گا تو آپ کو اپنے بچوں کی تربیت کرنے میں مزید آسانی ہوگی۔ اسی طرح میڈیا کو بھی ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔ جب ہم یونیورسٹی میں میڈیا سائسنز کے طالب علم تھے تو ہمارے اساتذہ ایک چیز پر بہت زور دیا کرتے تھے کہ میڈیا کا کام آگاہی پیدا کرنا بھی ہے۔
ریاست کا چوتھا ستون ہونے کے طور پر میڈیا ہاؤسز میں بیٹھے پروڈیوسرز حضرات سے بھی یہ گزارش کرنا چاہوں گا کہ آپ کے مارننگ شوز گھروں میں موجود خواتین دیکھتی ہیں جن کا بچوں کی تربیت میں والد سے زیادہ کردار ہوتا ہے کیونکہ وہ بچوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارتی ہیں۔ برائے مہربانی اپنے پروگرامز میں اس بات کو لازمی ملحوظ خاطر رکھیں کہ آپ کے پروگرام کا مواد لوگوں کے ذہنوں پر کیا اثر ڈالے گا۔
کہیں مزاح کے طور پر چلایا جانے والا آپ کا مواد لوگوں کے ذہنوں پر اتنا منفی اثر تو نہیں ڈال رہا کہ مستقبل میں ان کی زندگی ہی اجیرن ہوجائے۔ ایک دور میں اخباروں کے ایڈیٹرز اپنے رپورٹرز کو ایسی ہدایات کیا کرتے تھے۔ مگر اب کمرشل بازی کے دور میں یہ اقدار ہم بھی کہیں دور چھوڑ آئے ہیں۔