ایم کیو ایم کو گزر جانے دیں
پہلی مشکل یہ ہے کہ الطاف حسین کے پاس کوئی تنظیمی عہدہ نہیں لہٰذا نہ تو وہ خود کو سبکدوش کر سکتے ہیں اور نہ کوئی اور انھیں پارٹی سے نکال سکتا ہے حتی کہ وہ خود طے کریں کہ پارٹی سے ان کا کتنا تعلق رہے گا کتنا نہیں۔
دوسری مشکل یہ ہے کہ ایم کیو ایم کا تنظیمی ڈھانچہ کچھ یوں ہے کہ ہر شے قائد سے شروع اور قائد پر ختم ہوتی ہے۔
یوں سمجھیے کہ انگریزی ضرب المثل ’تمام راستے روم کو جاتے ہیں‘ الطاف حسین کے لیے ہی بنی ہے۔ یوں سمجھیے کہ اگر کل فیصل آباد کا گھنٹہ گھر غائب ہوجائے تب بھی تمام سڑکیں وہیں پر ختم ہوں گی۔
تیسری مشکل یہ ہے کہ خود ایم کیو ایم کا تنظیمی حلف ایسا ہے کہ الطاف حسین لاتعلق ہوں نہ ہوں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔اس حلف کی پہلی لائن ہے کہ میں متحدہ قومی موومنٹ اور الطاف حسین کا تاحیات وفادار رہوں گا۔اور آخری لائن کا لبِ لباب ہے کہ میں قسم کھاتا ہوں کہ کسی بھی معاملے میں الطاف حسین کے کیے گئے فیصلے کو حتمی تصور کروں گا بصورتِ دیگر مجھے غدار سمجھا جائے۔
چوتھی مشکل یہ ہے کہ ایم کیو ایم کا سیاسی ڈھانچہ تنظیمی ڈھانچے سے الگ ہے اور سیاسی ڈھانچہ تنظیمی ڈھانچے کے ماتحت ہے۔
ایم کیو ایم کی لندن رابطہ کمیٹی تنظیمی ڈھانچے کو براہِ راست کنٹرول کرتی ہے اور ایم کیو ایم کی پاکستان رابطہ کمیٹی و پارلیمانی پارٹی ان فیصلوں کو سیاسی جامہ پہناتی ہے۔( اس بابت سمجھانے کی غرض سے آر ایس ایس اور بی جے پی یا آئی آر اے اور شن فین کے تعلق کی مثال کسی حد تک دی جا سکتی ہے)۔
عملاً ایم کیو ایم کی پاکستان رابطہ کمیٹی ایک مشاورتی ادارہ ہے اور اسے ہر فیصلے کی توثیق لندن سیکریٹیریٹ ( الطاف حسین ) سے کروانا پڑتی ہے۔ اگر پاکستان رابطہ کمیٹی لندن سیکریٹیریٹ کے حسب منشا و اطمینان کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرے تو پھر اسے مقامی تنظیمی ڈھانچے کی کارکنانہ قوت کے ذریعے وقتاً فوقتاً ’ڈسپلن‘ کیا جاتا ہے۔
مقامی رابطہ کمیٹی یا ایم کیو ایم کی پارلیمانی پارٹی کے چہروں کو تو ہر کوئی میڈیا کے سبب جانتا ہے مگر زونل،سیکٹر و یونٹ انچارجوں کی فیصلہ کن تنظیمی زنجیر سے ایم کیو ایم سے باہر کے کتنے لوگ واقف ہیں؟
اگرچہ لندن سیکریٹیریٹ سے الطاف حسین کی جانب سے جو تازہ اعلان جاری ہوا اس میں بظاہر تمام سیاسی و انتظامی اختیارات پاکستان قیادت کو منتقل کرنے کا اعلان کیا گیا مگر یہ اعلان تب ہی موثر ہو سکتا ہے جب لندن کا ڈھانچہ بھی معطل کر دیا جائے اور زونل ، سیکٹر اور یونٹ کو بھی رفتہ رفتہ یقین ہو جائے کہ اب واقعی تمام فیصلے مقامی سطح پر رابطہ کمیٹی کی سیاسی قیادت کے تحت ہوں گے۔( یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے لندن سیکریٹیریٹ کی فون لائنز پر یہ ریکارڈڈ میسج چلنا مفید رہے گا کہ براہِ کرم تمام روزمرہ، تنظیمی، سیاسی و ذاتی امور کے لیے نائن زیرو سے رابطہ کیجیے)۔
مگر ایم کیو ایم کے لاکھوں ووٹرز اور ہمدردوں کا بینک تو الطاف حسین کو ہی جانتا ہے۔ الطاف حسین اس بار واقعی اپنے اعلان پر قائم رہتے ہیں اور کارکنوں کے ’پرزور اصرار‘ کو ہرگز خاطر میں نہیں لاتے تب بھی ووٹ بینک کو یہ بات ہضم کرنے میں خاصا وقت لگے گا کہ نئی ایم کیو ایم سے الطاف حسین کا تعلق علامتی ہے اور علامتی ہی رہے گا۔
ایم کیو ایم پاکستان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ الطاف حسین اگلے کم ازکم ایک برس کے لیے براہِ راست بیان دینے یا خطاب کرنے سے پرہیز کریں اور بہت ہی ضروری ہو تو اپنے بیان یا خطاب کے مندرجات پاکستان قیادت سے پیشگی ’ڈسکس‘ کر لیں تاکہ آئندہ کوئی اندھیرے یا کنفیوژن میں نہ مارا جائے۔
ایم کیو ایم کو کسی بھی طرح کی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نظرانداز نہیں کر سکتی اور نہ ہی وہ ایک خاص حد سے زیادہ ایم کیو ایم کا بازو مروڑ سکتی ہے۔
اگرچہ کچھ لوگ ایم کیو ایم کو بحیثیت جماعت کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن خوش آئند بات ہے کہ کوئی بھی سرکردہ سیاسی جماعت پوری پارٹی کو گناہ گار ٹھہرانے پر تیار نہیں۔
ایم کیو ایم سے لاکھ اختلاف سہی ، کسی کو پسند ہو یا نہ ہو لیکن وہ بہرحال پاکستان کی شہ رگ ( کراچی ) کی نمائندہ جماعت اور حیدرآباد، میرپور خاص اور سکھر کی شہری سیاست کا ناگزیر حصہ ہے اور پاکستان کی چوتھی بڑی سیاسی پارٹی ہے جس نے گذشتہ عام انتخابات میں 25 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیے۔
لہٰذا اس وقت ایم کیو ایم جس دور سے گذر رہی ہے اسے سہولت سے گزرنے دیا جائے۔ اس عمل کو کوئی خاص سمت دینے کی کوئی بھی ماورائے جماعت خارجی مداخلت معاملات کو سنوارنے کے بجائے مزید بگاڑ سکتی ہے۔
خواہ مخواہ کی ’اسٹیبلشمنٹی سیان پتی‘ دکھانے کے بجائے ایم کیو ایم کو اپنے مستقبل کی راہ خود مرتب کرنے اور خود درستگی کے عمل سے گذرنے کے لیے مہلت اور ’سپیس‘ کی فراہمی وقت کی اہم ضرورت ہے۔