بلاگ

ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کا یارانہ

رپورٹ: ایس ایم عابدی

ماہ اکتوبر میں کراچی کی دو نشستوں این اے 247 اور پی ایس 111 پر ہونے والے ضمنی انتخاب کے نتائج سے گرچہ پارٹی پوزیشن پر کوئی اثر نہیں پڑا، تاہم ان نتائج نے پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے درمیان پائی جانے والی روایتی خلیج واضح کردی۔ ایم کیو ایم کے رہنماؤں کنور نوید جمیل اور خواجہ اظہار نے ان نتائج کو ناصرف مسترد کیا بلکہ پولنگ کے عمل پر تحفظات کا بھی اظہار کیا۔ پی پی پی کے امیدوار قیصر نظامانی نے بھی نتائج پر تحفظات ظاہر کئے، تاہم ایم کیو ایم کی جانب سے ردعمل اس لئے نوٹس کے قابل تھا کیونکہ ایم کیو ایم پی ٹی آئی کی مرکز میں متبادل کے طور پر سامنے آئی۔

یہ انتخابات ایم کیو ایم کے لئے اہمیت کے حامل تھے، ایم کیو ایم گرچہ باہمی اختلافات کا شکار ہے تاہم ان کا اب بھی یہ دعویٰ برقرار ہے کہ وہ سندھ کے شہری علاقوں کی سب سے بڑی جماعت ہے، ان کے اس دعویٰ کو الیکشن کے نتائج کی حد تک پی ٹی آئی چیلنج کرچکی ہے اور مستقبل میں پی ٹی آئی سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کے متبادل کے طور پر سامنے آرہی ہے۔ ایم کیو ایم کی جانب سے پی ٹی آئی حکومت پر تنقید سے اس بات کی جانب اشارے مل رہے ہیں کہ مستقبل قریب میں ایم کیو ایم حزب اختلاف کی بنچوں پر ہوگی۔

مرکزی حکومت کے خلاف اپوزیشن اکٹھا ہورہی ہے جس کے واضح اشارے مل رہے ہیں۔ کراچی کی دو نشستیں گرچہ پی ٹی آئی لے اڑی، یہ نشستیں جولائی 2018ء میں بھی پی ٹی آئی کے نام رہی تھیں، این اے 247 صدر مملکت عارف علوی اور پی ایس 111 گورنر سندھ عمران اسماعیل نے خالی کی تھیں، تاہم ان نشستوں پر ضمنی انتخاب میں پی ٹی آئی عام انتخاب کے مقابلے میں صرف ایک تہائی ووٹ حاصل کر پائی، عام انتخاب میں قومی اسمبلی کی نشست عارف علوی 91 ہزار ووٹ سے جیتے تھے جبکہ ضمنی انتخاب میں یہی نشست آفتاب صدیقی نے ساڑھے بتیس ہزار ووٹ لے کر اپنے نام کی۔

کراچی میں ضمنی انتخاب کے موقع پر ٹرن آؤٹ صرف 13 فیصد رہا جو جمہوری عمل کے لئے نیک شگون نہیں۔ تاہم پاکستانی سیاست میں عمومی طور پر یہی دیکھنے کو ملتا رہا ہے کہ ضمنی انتخابات میں ووٹرز کا رجحان ایسا ہی ہوتا ہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کا یارانہ کتنا عرصہ چلے گا، یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن دونوں جماعتیں اپنی اندرونی کشمکش کی وجہ سے آئندہ مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی نظر آرہی ہیں۔

ایم کیو ایم کی جہاں تک بات کریں تو بانی ایم کیو ایم سے لاتعلقی کے اعلان کے  بعد سے ہی ایم کیو ایم میں نہایت واضح گروہ بندی نظر آنی شروع ہوگئی تھی، جو اب آشکار حقیقت کا روپ دھار چکی ہے۔ پی ایس پی نے پہلے ہی ایم کیو ایم کو ایک بڑا ڈینٹ لگایا تھا کہ اب ایم کیو ایم پاکستان بھی فاروق ستار گروپ اور عامر خان گروپ میں عملا تقسیم ہوچکی ہے۔ شہر بھر میں ایم کیو ایم کے کارکنان کی اکثریت بھی اس صورتحال سے نالاں ہے اور انتخابات میں شکست کا ذمہ دار موجودہ ذمہ داران اور صورتحال کو قرار دے رہے ہیں۔

دوسری جانب تحریک انصاف کراچی میں بھی گروہ بندی عروج پر ہے لیکن انتخابات میں جیت نے ان کی اس کمزوری پر پردہ ڈال دیا ہے، لیکن یہ کمزوری کب اپنا رنگ دکھائے گی، یہ بہت جلد واضح ہوجائے گا، کیونکہ آئندہ آنے والے بلدیاتی انتخابات میں یقینا تحریک انصاف کی کراچی میں گروہ بندی مزید واضح ہوجائے گی۔ سیاسی ماہرین کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ تحریک انصاف کو جس طرح کراچی کی عوام نے ایک امید کے طور پر ووٹ دیا، اگر پی ٹی آئی اراکین اسمبلی کا رویہ ان سے ویسا ہی رہا جیسا کہ آج ہے تو بعید نہیں کہ کراچی کا ووٹر اپنی غلطی کا ازالہ کرکے یہ ووٹ تحریک انصاف کے بجائے کسی اور جماعت دیدے۔

تحریر کا خلاصہ یہ کہ ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کا یارانہ کتنے عرصے بھی چلے، ابھی تک ظاہری طور پر اس کا فائدہ کراچی کی عوام کو ہی ہورہا ہے، کیونکہ کراچی کی عوام کو پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کے ساتھ ساتھ وفاق کی بھی مدد مل رہی ہے، لیکن اس یارانے کے ختم ہونے کا نقصان بھی کراچی کی عوام کو ہی سہنا پڑے گا۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close