مرد روتا کیوں نہیں؟
صدیوں سے ایک دوسرے سے منسلک رہنے والے دو مخالف جنس مرد و زن کی فطرت میں کئی ایسے عوامل ہیں کہ جو ایک دوسرے سے قدرے مختلف ہونے کے ساتھ ساتھ عجیب بھی ہیں۔ جہاں عورت اور آنسوؤں کا رشتہ بہت قدیم اور شدید ہے وہیں مرد کی ذات میں اس عنصر کا ہونا معیوب سی بات خیال کیا جاتا ہے۔ آج کے دور کی ہی بات کر لی جائے تو ہر تیسرے ڈرامے میں ایک آدھ عورت روتی ہوئی پائی جائے گئی؛ جبکہ مردوں کے سین افسردگی سے آگے جاتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ ڈرامائی دنیا سے نکل کر اگر حقیقی زندگی کا رُخ کیا جائے تو ہم نے روتی عورتیں تو بہت دیکھ رکھی ہوں گی، لیکن روتے مرد شاذو نادر ہی کہیں دیکھے ہوں گے۔
’’مرد روتے کیوں نہیں؟‘‘
ایک دلچسپ سوال سوشل میڈیا کی ویب سائٹ پہ حالیہ دنوں عورتوں کی جانب سے اٹھایا گیا جن کے مطابق مرد بہت کم یا تقریباً نہ ہونے کے برابر روتے ہیں۔ ایک خاتون نے تو یہاں تک لکھا کہ اس نے اپنے خاوند کو گزشتہ 12 سال کے دوران دو یا تین دفع ہی روتے دیکھا۔ آخر مردوں کے لیے رونا اتنا مشکل کیوں ہوتا ہے، یہ ایسا سوال ہے جس کو لے کر ہر عورت بے پناہ تجسس کا شکار نظر آئی۔ لیکن یہ راز ہے کہ کھلنے کا نام ہی نہیں لیتا۔
آنسو کئی وجوہات کی بنا پہ بہہ سکتے ہیں جس میں صدمہ، غم و غصہ، خوشی ومسرت، سکون اور تشکر جیسے جذبات شامل ہیں۔ بدقسمتی سے مرد ان سارے جذبات کی وجہ سے بہت الجھن کا شکار نظر آتے ہیں اورعوامی سطح پہ آنسو بہانا اپنی ذات کی توہین سمجھتے ہیں۔ اس ضمن میں معاشرے کی طرف سے ملنے والی مردانگی کا ٹیگ بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ رونا ایک فطری عمل ہے، لیکن اکثر معاشروں میں تہذیب اور مخصوص رویے اس فطری عمل میں حائل ایک ایسی دیوار ہیں جس کے مطابق مردوں کی مردانگی کو رونا زیب نہیں دیتا۔
’’دیکھو ذرا، مرد ہو کے کیسے عورتوں کی طرح ٹسوے بہا رہا ہے۔‘‘
کچھ ایسے کلمات سے مردوں کو نوازہ جاتا ہے جس کے باعث رونا ایک انہونی سے بات بن چکا ہے۔ بہت سے والدین بچپن سے ہی اپنے بیٹوں کی تربیت ایسی کرتے ہیں کہ رونا ان کا بہت ذاتی سا معاملہ ہونا چاہیے جو چھپ کے تنہائی میں سرانجام دیا جائے۔ بعض معاشروں میں تو مخصوص غم جن میں فوتگی یا شدید صدمے کے علاوہ مردوں کا رونا بہت تمسخر کا باعث بن جاتا ہے۔ جس پہ ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے کہ وہ مرد ہو کے رو رہے ہیں، اور ساتھ ہی یہ سبق بھی بجوبی یاد کروایا جاتا ہے کہ اصل مردانگی تو اپنے آنسوؤں کو قابو میں رکھنے کا نام ہے۔
معاشرتی رویے سے ہٹ کر اگر سائنسی نقطہ نظر سے بات کی جائے تو اصل راز کھلتا ہوا نظر آتا ہے۔ حالیہ ریسرچ کے مطابق عورتیں سال بھر میں 30 سے 65 مرتبہ روتی ہیں، جبکہ مرد 6 سے 17 مرتبہ روتے ہیں (یہ تعداد بھی ان کے مطابق بہت زیادہ ہے)۔ اسی ریسرچ کے تناظر میں ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ عورتوں کے مقابلے میں کم آنسو بہانے کی وجوہات مردوں کی فطرتی، نفسیاتی اور سماجی پہلو ہیں۔ پھر ایک اور اہم وجہ مردوں کے آنسوؤں میں ایک ہارمون prolactin کی کمی بتائی جاتی ہے جو جذباتی حالت میں آنکھوں سے بہہ نکلتا ہے۔ عورت چونکہ فطرتی طور پہ مردوں سے زیادہ جذباتی ہوتی ہیں تو ایسی حالت میں ان کے آنسو بہنے کی مقدار مردوں سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔
مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ جہاں ہارمون کی کمی رونے کا کم باعث بنتی ہے، وہیں معاشرہ بھی اس پہلو پہ گہرہ اثر انداز ہوتا ہے۔ عورت کے مقابلے میں مردوں کے نہ رونے اور اپنا غم چھپا کے رکھنے کی وجہ ان کی فطرت اور پرورش ہے۔ معاشرہ انہیں بچپن سے ہی بتاتا ہے کہ مرد روتے نہیں لہذا اُن میں یہ رویہ پختہ ہوجاتا ہے۔ اور اگر کبھی دو آنسو بہہ بھی جائیں تو معاشرہ ان کی مردانگی کو پرکھنے آن کھڑا ہوتا ہے۔ ایسے میں ہارمون اور جذباتی پن کی کمی کے باعث دو آنسو ٹپکانا ان کےلیے مشکل ہو جاتا ہے جس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ مرد حضرات تو روتے ہی نہیں۔ حالانکہ وہ روتے ہیں لیکن تنہائی میں۔