بچے اب بھی غیر محفوظ ہیں!
یہ 2013 کی بات ہے۔ کراچی کے علاقے ناظم آباد نمبر تین کی رہائشی منور بیگم گھر کا چولہا جلانے کی خاطر لوگوں کے گھروں میں کام کاج کرتی تھیں۔ ایک روز معمول کے مطابق منور بیگم کام پر گئیں، ان کی بڑی بیٹی عاصمہ پانی بھرنے گھر سے نکلی؛ اور پھر واپس کبھی نہ لوٹ سکی۔
عاصمہ کی چھوٹی بہن نے والدہ کو فون کرکے اطلاع دی کہ عاصمہ کو چھوٹے قد کا ایک آدمی اٹھا کر لے گیا ہے۔ ماں غم اور پریشانی سے نڈھال قریبی علاقے میں اپنی بیٹی کی تلاش میں ماری ماری پھرتی رہی مگر کوئی سراغٖ نہ ملا۔ تعلیم یافتہ نہ ہونے کے باعث پڑوسی کے لڑکے کے ساتھ حیدری تھانہ پہنچیں اور بیٹی کی گمشدگی کی اطلاع درج کروائی۔
منور بیگم آج بھی صبح کے وقت لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہیں اور پھر دن بھر اپنی بیٹی کی تلاش میں ماری ماری پھرتی ہیں۔ مگر افسوس! چار سال بعد معلوم ہوا کہ پولیس نے عاصمہ کی گمشدگی کی رپورٹ درج کی ہی نہیں۔ چند روز قبل بچوں کے تحفظ اور بازیابی کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’’روشنی‘‘ کے مدد سے عاصمہ کی گمشدگی کی ایف آئی آر درج کروائی جاسکی ہے۔
تاریخ نے خود کو ایک بار پھر دوہراتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر کئی سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ کراچی میں ایک بار پھر کم سن بچوں کی گمشدگی کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے، جس کی وجہ سے شہریوں میں عدم تحفظ کا احساس بھی شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ گلی محلوں سے بچوں کا اچانک لاپتا ہوجانا باعثِ تشویش ہے۔
سی پی ایل سی کی جاری کردہ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، رواں سال یکم جنوری سے اگست کے اختتام تک بچوں کی گمشدگی کے 151 کیسز رپورٹ ہوئے۔ تنظیم ’’روشنی‘‘ کے مطابق، جنوری 2017 سے رواں سال ستمبر تک 200 بچے لاپتا ہونے کی اطلاعات موصول ہوئیں، جن میں سے 177 کو بازیاب کروایا جاچکا ہے۔
ایک اور، سابقہ رپورٹ کے مطابق، 2013 میں ملک بھر سے بچوں کی گمشدگی کے 1913 واقعات درج کیے گئے جن میں 1098 لڑکے اور 815 لڑکیاں شامل ہیں۔ 2016 میں ان کیسز کی تعداد آسمان کو چھونے لگی؛ اُس سال بچوں کے اغوا سمیت زیادتی اور جبری شادی کے چار ہزار سے بھی زائد کیسز رپورٹ کیے گئے۔ 2017 میں صرف پہلے چھ ماہ کے دوران پولیس کو رپورٹ کیے گئے ان واقعات کی تعداد 1764 تک تھی۔
ایک بات اور واضح کرتا چلوں کہ پاکستان میں کمسن بچوں کے اغواء کے حوالے سے ’’خطرناک عمر‘‘ (vulnerable age) اور اسباب کا تعین بھی کیا جاچکا ہے۔ مثلاً اگر نومولود بچے سے چار سال تک کا بچہ لاپتا ہوجائے تو اس واقعے میں ممکنہ طور پر ایسا گروہ ملوث ہوسکتا ہے جو بچوں کو کسی بے اولاد جوڑے کوبیچ دے۔ 5 سے 10 سال کی عمر تک کے بچے کی گمشدگی میں گداگری کروانے والا گروہ ملوث ہوسکتا ہے۔ البتہ، پاکستان میں بچوں کےلیے گیارہ سے پندرہ سال کی عمر سب سے زیادہ خطرناک قرار دی گئی ہے۔ ان سب کے باوجود، ملکی سطح پر اس ضمن میں اب تک کوئی اہم پیش رفت نہیں کی گئی ہے۔
عقلمند اور باشعور قومیں اپنی غلطیوں سے سیکھتی ہیں، مگر ہم نے کیا سیکھا؟ پاکستان کی تاریخ میں بچوں کے اغوا اور زیادتی کی بات کی جائے تو یقیناً زینب کیس ہمیشہ زبان پر رہے گا۔ بالآخر مجرم اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ مگر مجرم عمران سے پہلے پولیس بچوں کی زیادتی سے متعلق ایک اور کیس میں مدثر نامی ایک شخص کو پولیس مقابلے میں ہلاک کرچکی تھی، جس کی شادی کو قریب ایک سال ہی ہوا تھا۔ بعد میں وہ الزام بھی عمران کے سر ڈال دیا گیا۔ خیر، قصور میں والدین آج بھی اپنے بچوں کو گلی میں اکیلا باہر بھیجنے سے ڈرتے ہیں۔ بندوقوں کی شکل اختیار کیے ہوئے کیمرے، گلی کے نکڑ سے ہر شخص کو اپنی زد پر رکھتے ہیں۔
شہر کی فضا اب بدل ہی چکی ہے۔ ہوٹل پر کھانا کھانے والا عام شخص بھی اسی موضوع پر بحث کرتا دکھائی دیتا ہے کہ کیا اس کے بچوں کا مستقبل ان سفاک بھیڑیوں سے محفوظ ہے؟ کیا اس کی بیٹی اسکول سے واپس گھر پہنچ پائے گی؟
لیکن کیا سزا کے بعد بچوں کے ساتھ زیادتی اور اغوا کے واقعات تھم گئے؟ ہرگز نہیں، حتیٰ کہ قصور میں تاحال یہ واقعات رونما ہورہے ہیں۔ تو کیا مستقبل میں ان پر قابو پایا جاسکے گا؟ اس بارے میں بات کرنا ضروری ہے۔
دراصل جرائم کا دوبارہ پنپنا اس بات کی علامت ہے کہ آپ غلطیوں کو مسلسل دوہرا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسے واقعات بار بار کیوں ہوتے ہیں؟ اگر ماضی پر نظر ڈالی جائےتو حکومت کی جانب سے کمیٹیاں اور قوانین تو فوری بنادیئے گئے، مگر اُن کی عملی کارکردگی اور نتائج ہمیشہ صفر ہی رہے۔ اس کی ایک اہم وجہ مانیٹرنگ کے نظام کا فقدان ہے اور یقیناً عمل درآمد میں کسی قسم کی کوتاہی بھی۔
پنجاب حکومت کی جانب سے ماضی میں بچوں کو ’’گڈ ٹچ‘‘ اور ’’بیڈ ٹچ‘‘ سے متعلق آگہی مہم بھی چلائی گئی، لیکن اس سب کا کیا نتیجہ نکلا؟ اس بارے میں حقیقی طور پر کوئی ثبوت موجود نہیں۔ حکام اس معاملے کی نوعیت اور سنجیدگی کو سمجھتے ہوئے اس طرح کے واقعات کی روک تھام کےلیے نہ صرف نصاب تعلیم میں جدت لاتے ہوئے ایسے مضامین بھی شامل کریں جن سے بچے معاشرتی برائیوں کو بہتر طور پر پہچان کر اُن سے بچ سکیں، بلکہ ساتھ ہی ساتھ والدین بھی اپنے بچوں سے دوستی کرنا سیکھیں تاکہ بچے اپنے مسائل ان کے سامنے بغیر کسی جھجک اور خوف کے بیان کرسکیں۔
کچھ روز قبل عدالت میں بچوں کی گمشدگی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ سماعت کے بعد عدالت کے باہر تفتیشی افسر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا: ’’عدالت ہم سے خوش نہیں!‘‘ یقیناً جب کارکردگی صفر بٹا صفر ہوگی تو بھلا کوئی کیسے خوش ہوسکتا ہے؟ غربت، بے روزگاری اور سیاست، اغوا کے واقعات کے بڑے اسباب ہیں، جنہیں صرف اور صرف حکومت کی مدد سے ختم کیا جاسکتا ہے۔
اگر صرف کراچی کی بات کریں تو یہاں عوامی نگرانی کی غرض سے دس ہزار سیکیورٹی کیمرے نصب کرنے کا منصوبہ تھا، جو آج تک صرف کاغذوں ہی میں موجود ہے؛ جبکہ شہر میں چھینا جھپٹی، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان اور دیگر جرائم کی وجہ بھی یہی ہے کہ یہ اور ایسے دیگر جرائم کی روک تھام اور بیخ کنی کےلیے اب تک کوئی خاص منصوبہ بندی ہی نہیں کی گئی۔ اگر بلدیاتی ادارے اور پولیس شہر میں مشترکہ حکمت عملی اپناتے ہوئے کراچی میں جدید سیکیورٹی کمرے لگائیں اور جرائم میں ملوث افراد کو پکڑ کر منطقی انجام تک پہنچائیں تو یقیناً شہر دوبارہ امن کا گہوارہ، محفوظ اور روشنیوں کا شہر قرار دیا جاسکے گا۔
اگر اس بھیانک تاریخ اور ان اعداد و شمار کو پڑھنے کے بعد بھی متعلقہ ادارے بچوں کو محفوظ مستقبل فراہم کرنے میں ناکام رہے تو واقعتاً عوام بھی ان سے خوش نہیں ہوں گے… کیونکہ وہ یا تو ان اداروں کے ذمہ داران کو حد درجہ نااہل سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے یا پھر، عوام کی نظروں میں، یہ ادارے ہی شریکِ جرم ہوں گے۔