سماجی بےحسی کا بوجھ
دانا ماجھی اپنے کندھے پر اپنی بیوی کی لاش اٹھائے ہوئے تقریباً 12 کلومیٹرتک پیدل چل چکا تھا ۔ ماجھی کی بیوی کا ٹی بی سے انتقال ہو گیا تھا اور ان کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ میت گھر لے جانے کے لیے ایک گاڑی کا انتظام کر پاتے۔
ماجھی کا کہنا تھا کہ ہسپتال نے ان کی مدد کرنے سے انکار دیا تھا اور ان کے پاس بس یہی ایک چارہ تھا کہ وہ اپنی بیوی کی لاش کو خود ہی اٹھا کر اپنے گاؤں لے کر جائیں جو کافی دوری پر تھا۔
ٹی وی جینلوں پر دانا ماجھی کو ایک چادر میں لپٹی ہوئی لاش کو اپنےکندھوں پر لے کر چلتے ہوئے دکھائے جانے کا منظر انتہائی دردناک تھا ۔یہ بھارتی معاشرے کی بے حسی کا بھی عکاس تھا۔
بھارت کی کم از کم ایک تہائی آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ ان میں اکثریت دلِت اور قبائلیوں کی ہے جو ملک کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ ہیں۔
بھارت کےسیاسی نظام کا سب سےمثبت پہلو یہ ہے کہ یہ ایک جہوریت ہے اور اس کا سب سےمنفی پہلو یہ ہے کہ آزادی کے بعد بھی ملک کی سیاست اور وسائل ایک مراعات یافتہ متمول طبقے کی گرفت میں ہیں۔
بھارت کے مراعت یافتہ سیاسی طبقے نے ایک ایسا نظام وضع کیا ہے جس کا ملک کا غریب اور کمزور طبقہ حصہ نہیں بن سکا۔ غریب طبقہ اپنی زمینوں اور قدرتی وسائل پر اپنے مالکانہ حق پہلے ہی کھو چکا ہے۔
ملک کا نظامِ انصاف ایسا بنایا گیا ہے کہ ملک کی اکثریت اس تک رسائی نہیں حاصل کر سکتی۔
طبّی سہولیات اتنی مہنگی ہیں اور وسائل اتنے کم ہیں کہ ملک کی ایک بڑی آبادی علاج نہ ہو پانے کے سبب چھوٹی چھوٹی بمیاریوں سے موت کا شکار ہو جاتی ہے۔ جن کی زندگی محض چند سو روپوں میں بچائی جا سکتی تھی۔
بھارت کے مراعت یافتہ سیاسی طبقے نے ایک ایسا معاشرہ تخلیق کیا ہے جس میں غریب اور کمزور کے لیے سوچنے کی جگہ محدود ہوتی جا رہی ہے۔ یہ ایک ایسا معاشر ہ ہے جہاں بیشتر لوگوں کی سوچ صرف خود تک محدود ہے۔
دوسروں کےبارے میں سوچنے اور ان کی فکر کرنے کی اقدار یہاں کم ملتی ہیں۔ انسانی رشتوں کا تعین باہمی مفاد، ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ پاکیزہ انسانی جذبے بھی ذات پات اور موروثی نفرتوں کے یرغمال ہیں۔ بھارت کا مراعات یافتہ طبقہ سب سے لاتعلق ہے۔
دانا ماجھی کی تصویر دیکھ کر سوشل میڈیا پر کسی نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ جیسے بھارتی جمہوریہ نے غریبوں کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہو۔ ماجھی اپنی بیوی کی لاش نہیں بھارتی جمہوریت اور معاشرے کی بےحسی کا بوجھ اپنے ناتواں کاندھوں پر اٹھائے ہوئے تھا۔
ماجھی کی بیوی کو چند سو روپوں میں بجایا جا سکتا تھا۔ معاشرے نے زندگی سےہی نہیں اس غریب کوموت کے وقار سے بھی محروم رکھا۔
یہ تصویر بہت طویل عرصے تک انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑتی رہے گی۔ بھارتی معاشرے پر بھلے ہی کوئی فرق نہ پڑے لیکن دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت دانا ماجھی سے ہمیشہ شرمساررہے گی۔