خواتین کیا پہنیں
عورتوں کو بن مانگے فیشن سے متعلق مشورے دینے والے سیاستدانوں کے لیے کچھ تجاویز جمع کی ہیں۔
گذشتہ ہفتے کے اختتام پر وزیرِ ثقافت مہیش شرما کی جانب سے ہوائی اڈے پر سیاحوں کو فہرست دی گئی جس میں انھیں مشورے دیے گئے تھے کہ وہ انڈیا میں سکرٹ پہننے اور چھوٹے قصبوں میں شام کے بعد اکیلے گھومنے سے گریز کریں۔
افسوس ناک طور پر عورتوں کو محفوظ رہنے اور ریپ سے بچنے کے لیے وہ ایسی ہدایات دینے والے نہ تو پہلے شخص ہیں اور نہ ہی شاید آخری ہوں گے۔
منسٹرز ، سیاسیتدان اور کئی پر اثر شخصیات خواتین اور لڑکیوں سے کہتے رہے ہیں کہ وہ جینز، شارٹ سکرٹ اور دوسرے مختصر لباس نہ پہنیں۔ خواتین سے رات کے وقت باہر نہ جانے اور مرد دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے، حتیٰ کے موبائل فون کے استعمال پر بھی پابندی عائد کی جاتی ہے۔
تازہ بیانات دینے والے افراد
- سماج وادی پارٹی کے رہنما ابو اعظمی کا کہنا تھا کہ ’مختصر لباس والی خواتین مردوں کی توجہ حاصل کرتی ہیں۔ اور عورتوں کی اسی کم لباسی کی وجہ سے ریپ کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔‘
- دائیں بازو کی جماعت ہندو راشٹریا سویامسیوک سانگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھگوت نے کہا ’ریپ شہروں میں مغربیت کے باعث پیدا ہونے والا جرم ہے جو انڈیا کے دیہاتی علاقوں میں نہیں ہوتا کیونکہ وہاں اب بھی روایات برقرار ہیں۔‘
- ایک خاتون سیاستدان آشا میرجی نے بھی یہ کہہ کر تنازع کھڑا کر دیا کہ ’ریپ خواتین کے لباس، ان کے رویے اور غلط جگہ پر موجود ہونے کی وجہ سے بھی ہوتے ہیں۔
سیاسدانوں کے الفاظ کی اہمیت کیوں ہے
دسمبر 2012 میں دہلی کی ایک 23 سالہ طالبہ کے سفاکانہ گینگ ریپ اور قتل کے بعد ریپ اور خواتین پر تشدد کے واقعات سے متعلق با اثر افراد کے بیانات کو سختی سے پرکھا جاتا ہے۔
انڈیا کے معاشرے میں اس طرح کے بیانات کی توجیہہ یہ کہہ کر پیش کی جاتی ہے کہ اس کا مطلب اچھا تھا اور اس کا مقصد عورت کا تحفظ ہے۔
لیکن حقوق نسواں کے لیے کام کرنے والی خواتین اس سے اتفاق نہیں کرتیں۔ ان کے بقول شارٹ سکرٹ اور ریپ میں کوئی باہمی تعلق نہیں ہے۔
دہلی کمیشن فار وومن کی سربراہ سواتی مالیوال کا کہنا تھا ’یہ بہت اہم ہے کہ یہ سیاستدان عورتوں کو یہ بتانا چھوڑ دیں کہ انھیں کس قسم کا لباس پہننا چاہیے۔‘
’اب وقت آ چکا ہے کہ ریپ اور جنسی ہراس جیسے مسائل کو ادنیٰ بنانا چھوڑ اس سنگین مسئلے کو حل کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔‘
سیاستدانوں کے لیے کچھ تجاویز
اپنے بے لگام بیانات کے باعث مشکلات کا شکار ہوجانے والے ایسے سیاستدانوں کے لیے سابق پبلک ریلیشن اہلکار چھایا سریواستا کے پاس چند اچھے مشورے ہیں۔
انھوں نے نشاندہی کی کہ وزیرِ ثقافت مہیش شرمانے یہ بھی تجویز دی تھی کہ رات کے وقت ٹیکسی لینے والی خواتین گاڑی کی نمبر پلیٹ کی تصویر لے کر کسی دوست یا رشتہ دار کو بھیج دیں تاکہ ڈرائیور خبردار رہے اور کوئی بدسلوکی نہ کر سکے۔
چھایا سریواستاکے بقول یہ ایک اچھی سوچ تھی لیکن لوگوں نے اس پر توجہ نہیں دی۔ ’ہمارے سیاستدان اپنی بات پہنچانے میں اچھے نہیں ہیں۔ انھیں اس بارے میں تہذیب سیکھنے کی ضرورت ہے۔‘
’انھیں کہنا چاہیے تھا کہ معذرت چاہتے ہیں کہ ہمارے ہاں کچھ بدمعاش ہیں اس لیے آپ محتاط رہیے گا۔‘
میں نے کامیڈین نیتی پلٹا سے بھی کہا کہ وہ بھی سیاستدانوں کو تنازعات سے بچنے کے لیے کوئی مشورہ دیں۔
ان کے مشوروں کی فہرست کچھ یوں تھی:
- پہلے تو یہ یاد رکھیں کہ عورت کپڑوں سے نہیں بنتی اور وہ لباس جس میں عورت کا ریپ نہیں ہوتا وہ ایسا لباس ہے جس میں عورت خود موجود نہیں ہوتی۔
- اپنی بات عوام کے سامنے کہنے سے پہلے اسے کم سے کم تین عورتوں کو سنائیں۔
- خود کو ٹائم مشین میں ڈال کر سنہ 2016 میں آئیں۔
- اپنے جیسے تمام لوگوں کو شام کے بعد گھروں میں بند کر دیں تاکہ ہم محفوظ رہیں۔
حیا دار لباس آئے کہاں سے
سیاستدانوں سے کہا گیا کہ وہ سنہ 2016 میں آ کر جییں یا زمانۂ قدم میں چلے جائیں۔
مؤرخین کے مطابق انڈین خواتین کے لباس میں شرم و حیا کا عنصر وکٹوریئن دور سے آیا۔
اور کئی لوگوں کے لیے یہ بات حیران کن ہوگی کہ انڈیا کا قومی لباس کہلانے والی ساڑھی میں بلاؤز اور پیٹی کوٹ کا اضافہ برطانوی دور حکومت میں ہوا تھا۔ یعنی حیاداری کی یہ روایت انڈین اقدار کی جڑوں میں نہیں تھی۔
اس بناوٹی شرم و حیا کے انڈین معاشرے میں آنے پر بحث جو بھی ہو لیکن انڈیا کے سیاستدانوں کو اب مشورے دیتے ہوئے توجہ سے کام لینا ہوگا۔ اور بجائے اس کے کہ وہ خواتین کو یہ مشورہ دیں کہ وہ کیا پہنیں انھیں مردوں کو یہ مشورہ دینا چاہیے کہ وہ کیسا برتاؤ کریں۔