بلاگ

بارش کا پانی ،ضائع ہوتی دولت

زمین کا 70 فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہے انسانی جسم کا بڑا حصہ بھی پانی پر ہی مشتمل ہے زمین پر سمندروں کی صورت میں پانی کی بڑی مقدار موجود ہے لیکن یہ پانی قابل استعمال نہیں ہے ۔ پانی انسان کو پینے کے لیے ہی نہیں بلکہ روزمرہ زندگی کے سبھی امور سرانجام دینے کے لیے ضروری ہے جب پاکستان بنا تھا تو ہر شہری کو اوسطا5000مکعب میٹر پانی دستیاب تھا لیکن اب یہ شرح کم ہوتی ہوئی 900مکعب میٹر تک پہنچ چکی ہے اور آنے والے برسوں میں اس میں مزید کمی کا امکان ہے اس کی بڑی وجہ ڈیموں کا نہ بننا اور بارشی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے اقدامات نہ کرنا ہے ۔
پاکستان ایسا خوش قسمت ملک ہے جہاں دریائی پانی بھی دستیاب ہے اور بادل بھی کھل کر برستے ہیں ایک طرف ہمارے ملک میں دریائی پانی کو محفوظ کرنے کے لیے وافر مقدار میں ڈیم نہیں بنائے گئے اور نہری نظام کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے پانی کی بڑی مقدار ضائع ہو جاتی ہے تو دوسری طرف بارش کے میٹھے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے بھی منصوبے نہیں بنائے گئے اور بارشی پانی کی بڑی مقدار سیوریج سسٹم کی نذر ہو جاتی ہے اور میٹھے پانی کی اس دولت کو ہم خود گٹروں میں بہا دیتے ہیں نہری پانی نہ ملنے کی وجہ سے کاشتکاری کے لیے بھی پانی کا بڑا حصہ ٹیوب ویلوں سے ہی حاصل کیا جاتا ہے پینے اور کاشت کاری دونوں کے لیے زیرزمین پانی کا بڑا حصہ استعمال ہو رہا ہے جس کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح بھی انتہائی نیچے جا چکی ہے۔
وہ علاقے جہاں آج سے 20سے 25سال پہلے تک 30فٹ گہرائی میں پانی مل جاتا تھا اب 80فٹ گہرائی میں بھی پانی نہیں مل پاتا لاہور میں جہاں 100فٹ گہرائی میں پانی دستیاب ہوتا تھا اب پانی کی سطح 500سے 600فٹ تک گر چکی ہے زیر زمین پانی کا میٹھا نہ ہونا شہروں کے شہر اور پوری تہذیبیں ختم کرتا آیا ہے5000سال پرانی ہاکڑا تہذیب کی بربادی کی ایک بڑی وجہ بھی دریائے ہاکڑا کا خشک ہونا ہی تھا ۔ جنوبی پنجاب اور بالائی سندھ میں موجود عظیم صحراءروہی چولستان اور تھر اسی خشک دریا کی ستم ظریفی کی داستان سنا رہے ہیں دریائے ہاکڑا یا گھاگھرا خشک ہوا تو پورا چولستان ہی اجڑ گیا تھا ۔ چولستان میں ویران پڑے درجنوں قلعے اور 400بستیوں کے آثار بھی میٹھے پانی کی عدم دستیابی کا ہی شکار ہوئے زیر زمین میٹھا پانی نہ ملنے کی ایک مثال رحیم یارخان کے نواحی علاقے بستی پٹواری میں موجود آبادی بھی ہے جس میں آج سے 8سال قبل 100گھروں کی بستی میں 200گردے کے مریض موجود تھے ۔
زیر زمین میٹھا پانی نہ ملنے کی وجہ سے نہری پانی پینے کا رواج تو دور دراز علاقوں میں آج بھی ہے اور جنوبی اور سندھ کے دیہی علاقے اس کی بڑی مثالیں ہیں ۔ میٹھے پانی کے ذخائر کو بڑھانے کا سب سے بڑا ذریعہ بارشیں اور دریا ہی ہیں لیکن پاکستان میں جب بھی بارش ہوتی ہے تو صرف شہری پریشان ہی ہوتے ہیں یا موسم کا مزہ لیتے ہیں اس پانی کو محفوظ کرنے کا کوئی بڑا منصوبہ کبھی دکھائی نہیں دیا ۔ لاہور جیسے پانی کی کمی کا شکار ہوتے شہر میں بھی ایسے منصوبے دکھائی نہیں دیتے کئی برسوں سے لاہور کے زیر زمین پانی کی سطح کو بڑھانے کے لیے جھیلیں بنانے کے منصوبوں کے بارے میں سرکاری سطح پر منصوبوں کا اعلان سنائی دیتا رہتا ہے لیکن عملی سطح پر کچھ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ۔

آبادیوں کے درمیان موجود ڈونگے گراونڈ بھی اب کم ہی دکھائی دیتے ہیں لاہور کے علاقے جوہر ٹاون میں ابھی تک چند گرین بیلٹوں میں کچھ چھوٹے تالاب موجود ہیں جن کے اندر ٹیوب ویل کے بور کیے گئے تھے ان کا مقصد بارشی پانی کو زمین کے اندر پہنچانا تھا تاکہ زیر زمین پانی کی سطح بلند ہو سکے لیکن یہ منصوبہ بھی پورے لاہور میں نہ پھیل سکا اگر بارشوں کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے بڑے تالاب ، چھوٹے ڈیم بنا لیے جائیں تو یہ پانی نہ صرف آبپاشی اور گھریلو استعمال کے مفید ثابت ہو سکتا ہے بلکہ زیر زمین پانی کی سطح بھی بلند کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ کھیتوں کے درمیان بنے ایسے گہرے تالاب نہ صرف فصلوں کو گلنے سڑنے سے بچا سکتے ہیں بلکہ ضرورت کے وقت یہی پانی کاشت کاری کے لیے استعمال بھی ہو سکتا ہے۔

صحرائی علاقوں میں پانی کے تالاب جنہیں ٹوبے کہا جاتا ہے بکثرت موجود ہوتے ہیں جو بارش کے پانی سے بھر جاتے ہیں چند فٹ گہرے ان تالابوں یا جھیلوں میں پانی 2سے 3ماہ تک جمع رہتا ہے اگران علاقوں میں پانی کے بڑے ذخائر بنا لیے جائیں تو وہاں بھی زندگی رواں دواں ہو سکتی ہے اور جمع شدہ یہ پانی اور اس کے آس پاس موجود سبزہ ان علاقوں کے موسم پر اثر انداز ہونے کے علاہ بارشوں میں اضافے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
لیکن ان دنوں بھی شدید طوفانی بارشیں تو برس رہی ہیں لیکن ان سے حاصل ہونے والا پانی سڑکیں ہی بند کر رہا ہے کئی فٹ گہرا یہ پانی جلد سے جلد نکالنے کی ہی کوشش کی جاتی ہے اور یہ پانی سیورج سسٹم کی بھینٹ ہی چڑھتا ہے کہا جا رہا ہے کہ آئندہ جنگیں پانی کی وجہ سے ہی ہوں گی سندھ اور پنجاب کے درمیان پانی کے مسئلے پر ارسا میں ہونے والے جھگڑے اس کا ثبوت ہیں ۔اگر پانی کو ذخیرہ کرنے کی طرف توجہ نہ دی گئی تو مستقبل میں یہ جھگڑے کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی جائیں گے اور کاشتکاری کے لیے تو پانی کم ملے گا ہی لیکن ساتھ ہی پینے کے لیے بھی صاف پانی کا ملنا نایاب ہوتا جائے گا ۔ اس لیے پینے کے پانی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے جنگی بنیادوں پر منصوبے بنانا ہوں گے اور اس کا سب سے بڑا حل بارش کا پانی محفوظ کرنا ہی ہے بارشوں کا میٹھا پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ہے گٹروں میں بہانے کے لیے نہیں ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close