بلاگ

’تلاش والدہ‘

اخبارات میں اکثر و بیشتر ‘تلاش گمشدہ’ کے اشتہارات ضرور شائع ہوتے ہیں، جائیداد کی خرید و فروخت کے اشتہارات کے علاوہ مصنوعات اور ملازمتوں کے اشتہارات کی بھی بھرمار ہوتی ہے لیکن جس اشتہار نے مجھے ڈاکٹر ذیشان سبحانی سے رابطہ کرنے مجبور کیا، وہ اشتہار تھا ‘تلاش والدہ’ کا۔

یقیناً اس اشتہار کے پیچھے بے حس سماجی رویے چھپے ہوں گے۔ یہی جاننے کی جستجو لیے میں نے ڈاکٹر ذیشان سے بذریعہ فون رابطہ کیا اور پوچھا کہ ‘کیا آپ کی والدہ کی تلاش کے لیے میں آپ کی مدد کرسکتی ہوں؟’

ڈاکٹر ذیشان سبحانی کی جانب سے شائع کروایا گیا اشتہار—۔اسکرین گریب

میں اس سے قبل بھی ایسی کئی ایشوز پر کام کرچکی ہوں، جس سے برسوں پرانے بچھڑے مل گئے۔ ڈاکٹر ذیشان سبحانی سے میں نے اپنا تعارف ایک سماجی اور معاشرتی مسائل پر کام کرنے والی صحافی کے طور پر کروایا لیکن خلاف توقع انہوں نے میری مدد لینے سے منع کردیا۔

بات آگے بڑھی تو معلوم ہوا کہ ان کے انکار کرنے کی وجہ وہ منفی پروپیگنڈہ تھا جو اس اشتہار کے شائع ہونے کے بعد ان کے خلاف سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر مختلف حلقوں اور عام صارفین کی جانب سے کیا جارہا تھا۔

کسی نے کہا، ’کیا فائدہ ایسی تعلیم کا جو ماں باپ کی اہمیت بھلا دے۔‘

سوشل میڈیا پر اشتہار کے حوالے سے کیے گئے تبصرے—۔اسکرین گریب

کوئی کہنے لگا کہ ’ماں کو اکیلا چھوڑا ہی کیوں تھا، جو یہ تلاش والدہ کا اشتہار دینے کی نوبت آگئی‘۔

ڈاکٹر ذیشان سبحانی نے بتایا کہ بچپن میں گھریلو ناچاقی، والدین کے درمیان عیلحدگی کا باعث بنی۔والدہ نے دوسری شادی کرلی اور وہ اپنی پھوپھو کے ہاتھوں پلے بڑھے، جنہوں نے آج تک ان کی وجہ سے شادی نہیں کی لیکن انسان کتنا بھی پڑھ لکھ جائے، کتنا بھی بڑا ہوجائے ماں کی کمی ہمیشہ محسوس ہوتی ہے۔

ڈاکٹر ذیشان بھی ماں کے لمس کو زندگی بھر ترستے رہے۔

جب چھوٹے تھے تو والدہ کی یاد اکثر انہیں ان کے پاس لے جاتی تھی، لیکن سوتیلے باپ کا رویہ اچھا نہ تھا۔ پھر والدہ بھی اپنے بچوں میں مگن رہتیں، یوں وہ میڈیکل کی تعلیم کے بعد انگلینڈ چلے گئے، لیکن جب بھی واپس آتے اپنی کھوئی جنت کی تلاش ضرور کرتے۔

ان کی والدہ کسی دور میں عزیز آباد میں رہائش پذیر تھیں اور محلے کی آوارہ بلیوں کو کھانا کھلانے کے باعث ‘بلی والی آنٹی’ کے نام مشہور تھیں۔ وہ انہیں وہیں ڈھونڈنے گئے تو پتہ چلا کہ وہ وہاں سے کہیں اور منتقل ہوچکی ہیں۔

ڈاکٹر ذیشان نے بتایا کہ بہت تگ و دو کے بعد انہیں ‘تلاش والدہ’ کا اشتہار اخبارات میں دینا پڑا، جس کے بعد اندرون و بیرون ملک سے ہزاروں کی تعداد میں پیغامات اور نیک خواہشات ضرور موصول ہوئیں، لیکن ساتھ ہی منفی پروپیگنڈہ بھی کیا گیا لیکن میں نے ہمت نہ ہاری اور بالآخر والدہ نے بذریعہ فون مجھ سے خود رابطہ کیا اور جب میری والدہ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھ پر بہت فخر کیا۔

ڈاکٹر ذیشان کی والدہ اپنے بیٹے اور بہو کے ساتھ کراچی میں ہی رہائش پزیر ہیں لیکن اُن کے شوہر کا انتقال ہوچکا ہے۔ والدہ سے مل کر بے چین بیٹے کے دل کو قرار آگیا ہے لیکن ڈاکٹر ذیشان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر بغیر تحقیق کیے گئے منفی تبصروں اور پوسٹس نے انہیں بہت دکھ پہنچایا ہے۔

واقعی کبھی کبھی ہم بہت ظالم ہوجاتے ہیں۔ لفظوں کے تیر چلاتے ہوئے یا کی بورڈ پر انگلیاں چلاتے ہوئے یہ سوچتے ہی نہیں کہ منہ سے نکلے الفاظ یا ٹائپ کیے گئے چند جملے کسی کے دل میں نشتر کی طرح پیوست ہوکر اسے کتنا گہرا زخم پہنچا سکتے ہیں۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close