اگر مولانا چترویدی ہو جائیں
مولانا محفوظ الرحمان شاہین جمالی مغربی اترپردیش میں مولانا چترویدی کے نام سے مشہور ہیں۔
انھوں نے ہندوؤں کی مذہبی کتابوں یا ویدوں کا بھی گہرا مطالعہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اگر یہ مولانا ہیں تو چترویدی کیوں ہیں؟ میں ان سے کہتا ہوں کہ مولانا اگر چترویدی بھی ہو جائے تو اس کی شان گھٹتی نہیں اور بڑھ جاتی ہے۔‘
ہندو مذہب میں چاروں ویدوں کا مطالعہ کرنے والوں کو چترویدی کہا جاتا ہے۔
مولانا شاہین جمالی دیوبند سے فارغ ہونے کے بعد سنسکرت زبان کی طرف راغب ہوئے اور پھر ویدوں اور ہندؤں کی دوسری مذہبی کتابوں میں ان کی دلچسپی بڑھتی چلی گئی۔
وہ کہتے ہیں کہ وید پڑھنے کے بعد’میں نے یہ محسوس کیا کہ میری زندگی کسی ایک خانے میں سمٹ کر نہیں رہ گئی ہے، بلکہ میں وسیع تر ہوگیا ہوں۔‘
وہ اپنے مدرسے میں طلبا کو رواداری کا پاٹھ پڑھاتے ہیں جس کے لیے وہ مانتے ہیں کہ دوسرے مذاہب کے بارے میں بھی جاننا ضروری ہے۔
’ہمارا پیغام یہ ہے کہ لوگوں میں فاصلہ اقتدار کی ہوس کی وجہ سے بڑھتا ہے۔۔۔لیکن انسانیت کے رشتے میں کوئی اختلاف نہیں، اس لیے میں انسانیت کے حوالے سے ویدوں میں کہی جانے والی باتوں کو بیان کرکے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کشش کرتا ہوں۔‘
ان کے مطابق ویدوں میں تین بنیادی باتیں کہی گئی ہیں ’خدا کی عبادت، انسان کی نجات اور انسانوں کی خدمت۔۔۔اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ تینوں چیزیں اسلام کے پیغام میں پہلے سے شامل ہیں۔‘
اس غیر معمولی مدرسے کے آس پاس رہنے والوں میں مولانا چترویدی خود بھی مقبول ہیں اور ان کا پیغام بھی۔
اظہار حسین قریب ہی کپڑوں کی دکان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جب ہندو لوگ کوئی مذہبی جلسہ کرتے ہیں تو مولانا جمالی کو بھی بلاتے ہیں۔۔۔ ہمیں ان کے مذہب کے بارے میں پتا چلتا ہے اور انھیں ہمارے۔
کلدیپ وارشنے قریب ہی چھولے بٹورے کی دکان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’آج کل ایسے لوگ کہاں ملتے ہیں جو دونوں مذاہب کی بات کریں۔۔۔ان کے پیغام سے میل ملاپ بنا رہتا ہے، ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے اور غلط فہمیوں کی وجہ سے جو فاصلے پیدا ہو گئے ہیں وہ کم ہوتے ہیں۔‘
انڈیا میں گذشتہ کچھ عرصے سے عدم رواداری کا ماحول بڑھا ہے، خاص طور پر مغربی اترپردیش میں مظفر نگر کے فسادات کے زخم ابھی بھرے نہیں ہیں۔
مولانا جمالی کہتے ہیں کہ ’اس تعلیم کا ہمارے ان بچوں پر یہ اثر پڑتا ہے کہ یہ جس معاشرے میں جائیں گے، وہاں ان کا واسطہ اپنے دوسرے مذہبی بھائیوں سے ہوگا، اور جو کچھ انھوں نے یہاں دیکھا ہے اس کا عملی مظاہرہ وہاں کریں گے اور میل ملاپ کے ذریعے آپس کے اتحاد کو مضبوط کریں گے۔‘