6 ستمبر کا دن وطن عزیز کے دفاع کیلئے عظیم قربانیوں کی یاد دلاتا ہے
کوئی بھی قوم اپنے دفاع سے غافل نہیں رہ سکتی۔ دفاع جتنا مضبوط ہو قوم بھی اتنی ہی شاندار اور مضبوط ہوتی ہے۔ آج 6 ستمبر 2011 ہے اور چھـ ستمبر کا دن ہم یوم دفاع کے طور پرمناتے ہیں۔ اس دن انڈیا نے پاکستان پر حملہ کردیاتھا اور الحمداللہ ہمارے لوگوں نے اورپاک فوج نے اس موقع پردشمن کو ایسادندان شکن جواب دیاجسکی مثال پوری دنیامیں نہیں ملتی ہے۔6ستمبر 1965 کی جنگ پاکستانی قوم کیلئے ایک وقار اور لازوال استقلال کا استعارہ ہے۔ 1965کی جنگ میں پاک فوج نے ملک کی سرحدوں کا دفاع باوقار انداز میں موثر بناتے ہوئے دنیا کو یہ باور کرا دیا کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں۔
6ستمبر 1965ءکو پاکستان کے قلب لاہورپر تین جانب سے حملہ کرکے قبضہ کرنے کے منصوبے پر 5اور 6ستمبر کی رات کو عمل شروع ہوا۔منصوبے کے مطابق 6ستمبر کی صبح روڈ لاہور پر بھارتی فوج سے وزیراعظم لال بہادر شاستری اپنی کابینہ کے چند وزرا ءکے ہمراہ سلامی لیں گے اورشام کو لاہور جم خانہ میں کاک ٹیل پارٹی میں بیرونی دنیا کو خبردی جائے گی کہ دنیا ئے اسلام کی سب سے بڑی ریاست کے دل پر کفار کا قبضہ ہو چکا ہے ۔ان بدمست گروہ نے صبح ہی یہ اعلان کر ڈالا کہ ہندو ٹڈی دل لاہور میں داخل ہوگئے۔مغربی ذرائع نے تصدیق کے بغیر یہ خبر جاری کر دی مگر شمع حریت کے پروانوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر ہر محاذ پر دشمن کو آگے بڑھنے سے روکے رکھا ۔واہگہ پر رینجرز کے میجر علیم الدین نے شہید ہوتے ہوئے پاک فوج تک حملے کی خبر پہنچادی ۔میجر آفتاب اللہ نے بڑی جواں مردی سے بی آربی کا پل اڑایا ۔میجر حبیب نے ہڈیارہ گاؤں کے قریب اپنی کمپنی کے ساتھ دشمن کے ساتویں ڈویژن کی پیش قدمی روکی۔ میجر عزیز بھٹی برکی کے مقام پر دشمن کے سامنے سینہ سپر ہوگئے۔یہی عزیز بھٹی ہیں جنہیں عمدہ حکمت عملی کے ذریعے دشمن کو شدید نقصان پہنچاتے ہوئے جام شہادت نوش کرنے پر اعلیٰ ترین فوجی اعزاز نشان حیدر عطاکیا گیا۔میجر شفقت جیسے بہادر س سپوت کو فراموش نہیںکیا جاسکتا جنہوں نے چھوٹے ہتھیاروں سے ٹینکوں کے منہ موڑ ڈالے ۔اس جوابی حملے سے دشمن گھبرا گیا اس بوکھلاہٹ کے عالم میں ٹینک گاڑیاں اسلحہ چھوڑ کر فرارہوگئے ۔حد تو یہ ہے کہ میجر جنرل نارنجن پرشاد بھی اپنی گاڑی چھوڑکربھاگنے پر مجبور ہوا ۔لاہور6ستمبر کے عینی شاہدریٹائرڈبینک افیسر وخطیب جاوید بٹ بتاتے ہیں کہ بی آربی تک بھارتی افواج پہنچ چکی تھی ۔ہم لوگ باٹاپور کے ر ہا ئشی اپنے گھر چھوڑ کر لاہورکی جانب نکلے ۔جی ٹی روڈ پر واقع پل کسی گولاسے نہیں بلکہ بڑی کوشش کے بعد ڈائنا منٹ سے اڑایا گیا ۔نہر کے اس پار بیشمار فوجی جوان اس پل کو اڑانے کی کوشش میں شہید ہوئے اتنے میں ایک کسان بھوسہ سے لدی بیل گاڑی لئے پل کے قریب پہنچا تو ہمارے شیر جوان نے اس کی آڑ میں رینگتے ہوئے پل کے نیچے ڈائنا منٹ فٹ کرکے پل اڑادیا ۔7,8 ستمبر کو بھارت نے سیالکوٹ پر قبضے کا خواب دیکھ کر شدید حملہ کیا ۔اسی رات پاک فضائیہ نے C130ٹرانسپورٹ طیاروںکے ذریعے ہلواڑہ ، اودھم پوراور پٹھان کوٹ ہوائی اڈے تباہ کرنے کےلئے کمانڈو اتارے جنہوں نے فدائی حملے کرتے ہوئے دشمن کی فضائیہ کی طاقت کو ملیامیٹ کر دینے اور اگلے جہان کے لئے سرخروہوگئے۔اسی طرح سیالکوٹ کے محاذچونڈہ پر سینکڑوں ٹینکوں کی یلغار سینے پر بم باندھ کر روک ڈالی پھونک ڈالی ۔6ستمبر 1965ءنہ صرف پاک بھارت جنگ تھی بلکہ کفر و اسلام کے درمیان عظیم معرکہ تھا جسے پوری قوم اپنے خلاف چیلنج جانتے ہوئے ہوئے مقابلے میں نکل کھڑی ہوئی۔پاک فوج کے شانہ بشانہ لاہور کی عوام نے جنگ کی دہشت و حشت کو ایک کھیل کا درجہ دیتے ہوئے جس بے جگری اور فیاضی کا مظاہرہ کیا وہ ہماری تاریخ کادرخشاں باب ہے۔اس جنگ میں برادر اسلامی ممالک نے بھی مذہبی اخوت و یک جہتی کا ثبوت دیا ۔سعودی عرب، انڈو نیشیاء، ایران ، اردن ، مصر نے سیاسی اخلاقی فوجی ہر سطح پر پاکستانی قوم کا ساتھ دیا اسے ہم کبھی فراموش نہیں کرسکتے ۔6ستمبر 1965ءکو ہمیں اس کی شان کے مطابق منانا چاہیے ۔
اس وقت بھی امریکہ نے اپنے دوستی کا حق ادا کیاتھاکہ ہماری فوجی امداد بندکردی تھی اور انڈیاکاساتھـ دیاہے اور آج بھی ہماری حالت ایسی ہے کہ ہم اپنے ماضی سےذرا سابھی سبق نہیں لے چکے ہیں ہماراہرحکمران امریکہ کی جھولی میں بیٹھناپسند کرتاہے حالانکہ ہمارے پڑوس میں چین ایک ایسی طاقت ہے جس کی بھی پوری دنیامیں مثال نہیں ہے۔ اس وقت بھی عوام نے امریکہ کی اس ہٹ دھرمی کو بری طرح محسوس کیااوراس کی مخالفت کی لیکن ہمارے حکمرانوں کے کان پر جوں تک ناں رینگی اوراب بھی یہی حال ہے کہ ہم داخلی طورپراس بری طرح امریکہ کی دہشت گردی کی آگ میں جل رہے ہیں ہمارے اربوں ڈالرکانقصان ہوچکاہے اورہزاروں بندوں کی اس کی جنگ میں شہیدکروا کر اب بھی ہماری ہرتان امریکہ پرہی ٹوٹتی ہے۔
اس دن ہم نے متحد ہوکرسترہ دن تک بھارت کامقابلہ کیاتھاسترہ دن کی جنگ میں ہم نے بہت کچھـ کھویالیکن قوم ایسی متحد تھی ہرکوئی ایکدوسرے سے بازی لےجانےکی کوشش میں تھاہرایک دوسرے کے لئے اپنی جان نثار کرنے کے واسطے تیارتھا۔لیکن اب سینتالیس سالوں کے بعد پھراس جذبوں کو ابھرانے کی ضرورت ہے دراصل ہم کو اس بری طرح ایکدوسرے سے علیحدہ کرنےکی منظم کوشش کی جارہی ہے اور ہم ہیں کہ دشمن کی اس چال کویاتوسمجھـ نہیں رہے یاکہ شترمرغ کی طرح اپنی چونچ کو ریت میں دبارہے ہیں۔ پینسٹھـ کے بعدہماری قوم زلزے پر اکٹھی ہوئی پھرہم لوگ سیلاب پر اکٹھے ہوئے لیکن ہمارے حکمران ایسے نااہل ہیں کہ انہوں نے ہی اپنی سیاست سے ہم کو ایکدوسرے سے ایسابیگانہ کردیاہے کہ اگراب کوئی سڑک پر حادثہ سے مربھی رہاہے توہم لوگ کھڑے ہوکرتماشہ ضرور دیکھتےہیں اس کے لئے کوئی بھی عملی قدم نہیں اٹھاتے کہ اس کی جان بچائی جاسکے۔
اس جنگ میں بھی قوم کے بہادر سپوتوں نے جان کے نذرانے پیش کئے اور آج جب قوم کو دہشت گردوں کے خلاف جنگ کا سامنا ہے تو بھی افواج پاکستان کے جانباز جان کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ 6 ستمبر کا دن وطن عزیز کے دفاع کیلئے عظیم قربانیوں کی یاد دلاتا ہے۔ قوموں کی زندگی میں کچھ دن انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جن کے باعث ان کا تشخص ایک غیور اور جرات مند قوم کا ہوتا ہے۔ آج کے دن وطن عزیز کے ہر فرد کو عہد کرنا ہے کہ وہ وطن عزیز کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کو زندگی کی سب سے پہلی اور بڑی ترجیح بنا کر اس شعور کو اگلی نسلوں تک پہنچا ئیں گے۔
حامد حسین
@hhamid75