تحریر: سلمان غنی
حکومتی ذمہ داران کی جانب سے ان بیانات پر کہ نواز شریف 24 دسمبر کو واپس جیل چلے جائیں گے ۔ قبل از وقت عدالتی فیصلہ پر کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ فیصلہ کے حوالے سے یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اس فیصلہ کے اثرات ملکی حالات اور سیاسی محاذ پر ضرور ہوں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ عدالت کی جانب سے 24 دسمبر کو فیصلہ کے اعلان کے بعد اعلیٰ سطح کے حکومتی سیاسی حلقوں میں فیصلہ اس کے اثرات اور اس پر اپنی اپنی حکمت عملی پر غور و خوض شروع ہے ،سیاسی محاذ پر تاثر یہ غالب ہے کہ اگر نیب عدالت سے سابق وزیراعظم نواز شریف کو سزا ہوتی ہے اور انہیں جیل جانا پڑتا ہے تو حکومت کو اس کا سیاسی فائدہ ضرور ہوگا۔ کیونکہ حکومت کی جانب سے اپنی کارکردگی سے زیادہ ان کی دلچسپی اپنے مخالفین خصوصاً شریف خاندان کی سیاست پر اثر انداز ہونا ہے ۔
لہٰذا دیکھنا یہ ہوگا کہ اس فیصلہ کے اثرات مسلم لیگ ن پر کیا ہوں گے ۔ ملکی سیاست کیا رخ اختیار کرے گی،خصوصاً یہ کہ حکومت کو اطمینان اور ملک میں استحکام آ سکے گا۔ جیل جانا کبھی بھی کسی کیلئے اچھی بات نہیں ہوتی۔ لیکن اہل سیاست کیلئے یہ بری بھی نہیں ہوتی کیونکہ عوام کے کسی بھی لیڈر شپ کے حوالے سے اپنی رائے اور اپنے پیمانے ہوتے ہیں، العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس کا فیصلہ اگر نواز شریف کے خلاف آتا ہے اور انہیں جیل جانا پڑتا ہے تو مسلم لیگ ن پر تو کوئی خاص اثرات نہیں ہوں گے البتہ قومی سیاست میں درجہ حرارت اور بڑھے گا کیونکہ دوسری جانب خود سابق صدر آصف علی زرداری کے حوالے سے بھی ایسی خبریں گردش کر رہی ہیں کہ جعلی اکاؤنٹس سکینڈل پر بننے والی جے آئی ٹی کے بعد انہیں بھی جیل جانا پڑ سکتا ہے ۔
سیاسی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ سزاؤں کے عمل اور جیلوں میں جانے سے نہ تو پارٹیاں ختم ہوتی ہیں اور نہ ہی سیاسی قیادتیں اپنی موت مر جاتی ہیں۔ جہاں تک حکومت کیلئے ان فیصلوں کی صورت میں اطمینان کا سوال ہے تو بظاہر یونہی نظر آ رہا ہے کہ حکومت کی اولین ترجیح سیاسی مخالفین خصوصاً نواز شریف اور آصف زرداری کی جیل یاترا ہے لیکن ان کا یہ اطمینان ملک میں عدم استحکام اور انتشار کا باعث بنے گا اور اس کے براہ راست اثرات ملکی ترقی ، معیشت کی صورتحال اور گورننس پر پڑیں گے ۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ پہلی مرتبہ حکومت میں آنے کے تجربہ کے ساتھ وزیراعظم عمران خان سیاسی پختگی کا ثبوت دیتے ہوئے قومی مفاہمت کی جانب بڑھتے جس کے نتیجہ میں حکومت بھی ڈلیور کرنے کی پوزیشن میں ہوتی۔ مسائل کے حل کیلئے پارلیمنٹ کو بروئے کار لایا جاتا اور پاکستان ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوتا۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا اور یہی وجہ ہے کہ چار ماہ ہونے کو آئے ابھی تک کسی مالیاتی بل یا کسی ایشو پر قانون سازی میں ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکا۔
یہاں تک کہ جنوبی پنجاب صوبہ کے حوالے سے حکومت نے جو بڑا نعرہ لگایا تھا پارلیمنٹ کی صورتحال کے باعث اس کا بھی اب کوئی امکان ہی نظر نہیں آ رہا۔ ایسی افواہیں بھی عام ہیں کہ سابق صدر آصف زرداری اور نواز شریف کے جیل میں جانے کی صورت میں ملک کو آگے چلانے کیلئے حکومت توڑ پھوڑ کرنے کے بعد دو تہائی اکثریت کی حامل حکومت بننے کیلئے مڈٹرم انتخابات کی جانب بڑھ سکتی ہے ۔لیکن عملاً ایسا ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ اب تک کی حکومتی کارکردگی اور حکمران طبقہ کی اہلیت کی بنا پر ایسا کوئی عمل خود حکومت کیلئے الٹا پڑ سکتا ہے اور محسوس یہ ہوتا ہے کہ قبل از وقت انتخابات کی بات کرنے والے ہی دراصل حکومت کے پاؤں نہیں لگنے دینا چاہتے اور وہ حکومت کے اندر کسی اور کے ایجنڈا پر گامزن ہیں۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ حکومت کتنی بھی مضبوط ہو لیکن بحران ہمیشہ اس کیلئے گھاٹے کا سودا ثابت ہوتے ہیں،انہیں لینے کے دینے پڑتے ہیں، اب کی بار نئی اور کمزور حکومت کسی غیر آئینی طریقہ سے گئی تو پھر اصل نقصان صرف تحریک انصاف نہیں ساری سیاسی قوتوں سمیت جمہوری نظام کا ہوگا۔