2018 کو سیاست میں تبدیلی“کا سال کہنا غلط نہیں۔ اس سال کی ایک اور خاصیت یہ بھی ہے کہ اس سال ملکی تاریخ میں پہلی باردوسری جمہوری حکومت نے اپنی ٹرم پوری کی، عام انتخابات ہوئے، جمہوریت نے غیر جمہوری قوتوں کو شکست دی اور تیسری سیاسی حکومت اقتدار میں آئی۔
انتخابات میں دھاندلی کے الزامات ایک طرف لیکن یہ حقیقت ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں نے جمہوریت کے راستے میں ایک سنگ میل عبور کرتے ہوئے قدم آگے بڑھا یا۔ اپنے ذاتی مفادات اور تنازعات کو پس پشت ڈال کر اسمبلیوں میں مسائل پر بات چیت کو ترجیح دی۔ یقیناً اسی کو حقیقی جمہو ریت کے جانب کامیابی سے سفر جاری رکھنے کا عزم کہتے ہیں۔ اس طرح 2018 ناصرف انتخابات کا سال رہا جس میں 2008 اور 2013 کے بعد ملکی سیاست میں ایک تبدیلی آئی اور تیسری بار جمہوری عمل کے نتیجے میں ایک سیاسی تبدیلی آئی۔
2018 نے سیاست میں چند بڑے لیڈروں اور جماعتوں کا عروج و زوال دیکھا۔ گزشتہ سال سیاست میں جن تین بڑے نام میڈیا اور عوام کی توجہ کا مرکز رہے وہ تھے عمران خان، نواز شریف اور خادم رضوی جن کی سیاسی منظر نامے پر اچانک آمد اور خروج سے کئی سوالات نے جنم لیا ۔
چلیں تحریک لبیک پاکستان ، ٹی ایل پی، سے ابتداء کرتے ہیں۔ یہ جماعت 2017 میں نواز دور میں ایک طاقتور مذہبی گروپ کی صورت میں سامنے آئی اور تحریک لبیک ناصرف ن لیگی حکومت کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی بلکہ 2018 کے عام انتخابات میں بڑی سیاسی قوت بن کر کئی برج الٹ دیے ۔
لوگ
تو یہاں تک کہہ گئے کہ اس جماعت نے انتخابات کے نتائج پر اثرانداز ہو کر ن
لیگ ، پیپلزپارٹی اور دیگر کی جیت میں رکاوٹ بنی۔ اگرچہ اس کے امیدوار
کراچی سے سندھ اسمبلی کی دو نشستوں چھوڑ کر تمام حلقوں سے ہار گئے ۔ تاہم
اس کے امیدوارں نے 25 ہزار سے 45 ہزار اور کہیں کہیں تو اس بھی زیادہ ووٹ
حاصل کیے۔ اگر تحریک لبیک نے پنجاب میں نواز لیگ کو نقصان پہنچایا تو سندھ
اور خصوصاً کراچی میں ایم کیو ایم پاکستان کی جیت کی راہ میں رکاوٹ ثابت
ہوئی۔
تحریک لبیک پاکستان کے لیڈران بشمول اس کے شعلہ بیاں قائد خادم رضوی اب غداری کے الزامات پر قید ہیں ۔ ان مذہبی رہنماؤں پر تحریک انصاف حکومت کے خلاف تین روزہ دھرنے کے دوران متنازعہ تقاریر کرنے کے ساتھ عوام اور اہم حکومتی اداروں کو بغاوت پر اکسانے کے الزامات ہیں۔ الیکشن کمیشن میں اس جماعت کی رجسٹریشن کینسل کرنے کی درخواست بھی دائر ہے۔
2018 کو تبدیلی کا سال اس لیے بھی کہتے ہیں کیوں کہ اس سال "تخت لاہور ” پر تبدیلی کے ساتھ "کراچی میں تختہ” ہو گیا۔گزرے برس سب نے سیاسی افق پر کئی واقعات رونما ہوئے جس میں فعال عدلیہ، پر اعتماد اسٹبیلشمنٹ اور 25 جولائی کو آنے والی تبدیلی۔
اگر ن لیگ کے ہاتھوں سے "تخت لاہور”
نکل گیا تو متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کو سندھ میں عبرت ناک شکست کا سامنا
کرنا پڑا۔ ایم کیو ایم پاکستان قومی اسمبلی میں 2013 کی جیتی ہوئی 17
نشستوں میں سے صرف 6 پر ہی کامیاب ہو سکی جس میں کراچی کی چار اور حیدرآباد
کی دو نشستیں شامل ہیں۔
اگر
ہم متحدہ سے متحدہ پاکستان کی تبدیلی پر بات کریں تو اس کے لیے علیحدہ
مضمون لکھنے کی ضرورت پڑے گی۔ ایم کیوایم پاکستان کی شکست میں جہاں تحریک
لبیک رکاوٹ بنی وہیں اس جماعت میں پڑنے والی دراڑیں اور اس کے حصے بخیے
ہونا بھی اہم تھا جس کی کچھ معلوم اور نامعلوم وجوہات تھیں ان تمام اسباب
نے تحریک انصاف کو جیت کے مواقع فراہم کیے۔
کراچی میں آنے والی سیاسی تبدیلی نے ایم کیو ایم کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کے لیےکچھ انہونی بات نہیں تھی مگر جس بات نے سب کو حیرت میں ڈال دیا وہ "تخت لیاری” کا خاتمہ تھا۔ جس شکست نے سب کو حیرت زدہ کیا وہ لیاری سے "بھٹو” کی ہا ر تھی اور وہ بھی پی پی پی کے سابق کارکن اور پی ٹی آئی کے موجودہ رکن شکور شاد سے۔ اگرچہ کچھ عرصے سے پیپلز پارٹی اس حلقے میں مشکلات کا شکار چلی آ رہی تھی جس کی بنیادی وجہ عزیر بلوچ کی حمایت تھی مگر اس کے باوجود”بھٹو” کی اس حلقے سے ہار نے سب کو چونکا دیا۔ کچھ تبصرہ کار بےنظیر کی سیاست کی باگ ڈور آصف زرداری کے ہاتھ میں آنا قرار دیتے ہیں جو پیپلز پارٹی کی پاکستان بھر سے شکست بنی لیکن لیاری کی ہار لاڑکانہ کی سیٹ ہارنے سے کسی طور کم نہیں ہے۔
جو دو رہنما پاکستان کے سیاسی افق پر چھائے رہے وہ تھے عمران خان اور نواز شریف ۔ ایک وزیراعظم کے عہدے پر براجمان ہوا تو دوسرا جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلا گیا اور سال کے اختتام تک مشکلات کا شکار ۔۔کیوں کہ اس کی جماعت مسلم لیگ نواز تمام تر مخالف حالات کے باوجود متحد ہے اور مستقبل قریب میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات پر نظریں لگائے ہوئے ہیں۔
2018 نے موروثی سیاست کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔ وجہ ؟ غیر یقینی کی صورت حال کا چھائے رہنا۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت بچوں میں منتقل ہورہی تھی۔ نواز لیگ کی قیادت مریم نواز کے سپرد ہونے کو تھی جبکہ بلاول بھٹو نے آصف علی زرداری کے جانشین کے طور پر پیپلز پارٹی کی عملی قیادت سنبھال لی ۔
مریم نواز کے سیاسی مستقبل کا دارومدار ان کے خلاف مقدمات کے فیصلے پر منحصر ہے۔ اگر وہ اس مرحلے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو وہ عمران خان اور تحریک انصاف کے لیے سنگین خطرہ بن سکتی ہیں۔
نواز شریف خاندان اور خاص طور پر مریم نواز اپنی والدہ کلثوم نواز کی موت کے صدمے سے باہر نہیں آسکی ہیں جن کا طویل علالت کے بعد ایک ایسے وقت انتقال ہوا جب ان کے شوہر نواز شریف اور بیٹی مریم صفدر پاکستان میں قید تھے۔ مشرف دور میں نواز شریف کی اٹک قلعے میں قید کے دوران مرحومہ کلثوم نواز کی جدوجہد اور ایک کامیاب تحریک چلانے کو سیاسی حلقے ستائش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
بلاول بھٹو اور پیپلز پارٹی کا المیہ یہ ہے کہ بلاول اپنے والد آصف علی زرداری کی موجودگی میں پارٹی کی قیادت سنبھالنے کے لیے جگہ بنانے کی کوشش میں ہیں۔ پی پی پی کے اہم رہنماووں کا کہنا ہےپارٹی رہنما آصف زرداری سے پارٹی قیادت سے سبکدوش ہو کر اسے بلاول کو سپرد کرنے کا مشورہ دے چکے ہیں تاہم وہ ابھی پارٹی قیادت چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں اور یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں کہ وہ کب قیادت کی ذمہ داری بلاول کے شانے پر منتقل کرتے ہیں۔
عمران خان
2018 کے عام انتخابات "تبدیلی”کا نعرہ متعارف کروانے والے عمران خان نے اپنے سیاسی ناقدین کو غلط ثابت کیا۔ میں عمران خان کو ان کے سیاسی زندگی کے ابتدائی ایام سے جاننتا ہوں ، 1996 میں تحریک انصاف کی بنیاد رکھنے سے بھی پہلے سے۔ جب ان کی زمان پارک رہائش گاہ میں ان کے 15 سے 20 دوست یا ساتھی ہوا کرتے تھے ۔ یہ افراد کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ ان میں اپنے اپنے شعبوں کے ماہرین کے علاوہ معروف صنعت کار اور کاروباری افراد ہوتے تھے۔
حیران کن طور پر 1992 کرکٹ ورلڈکپ جیتنےوالا کپتان ملک ایک وزیر اعظم بن گیا۔ 22 سال کرکٹ کی دنیا میں کامیابی کے ریکارڈ بنانے اور پھر 22 سال اپوزیشن کی سیاست کرنے والا عمران خان نوجوان نسل کا مقبول ترین لیڈر ہے۔ کرکٹ اور سیاست دونوں میدانوں میں ان کی زندگی کامیابی اور ناکامی کے ادوار سے گزری لیکن جس چیز نے ان کو کامیاب کیا وہ ان کا ” جیتنے کا عزم اور ثابت قدمی”تھا۔
عمران خان 65 سال کی عمر میں بھی اکثر نوجوان سیاستدانوں سے کہیں زیادہ تندرست اور فٹ ہیں جن کو اگلے پانچ برس کے دوران اپنی سیاسی حکمت عملی کو کامیاب ثابت کرنا ہے۔ ان کی حکومت کے پہلے 100 دن تنازعات کا شکار رہے جس میں انہوں نےغیر مقبول اور برے فیصلوں کے علاوہ بلند و بانگ دعوے اور وعدے کیے گئے۔لہٰذا انہیں اب 2019 کو حقیقی تبدیلی کا سال بناکر اپنے مخالفین کو خاموش کروا نا ہوگا ۔
آج سےقریب 10 سال پہلے سنہء 2008 کے بعد عمران خان کی تحریک انصاف نے سیاست میں ہل چل مچانا کرنا شروع کی ۔ اگلے تین برسوں میں انہوں نے نہایت کامیابی سے عوام کو یہ باور کروا دیا کہ پی ٹی آئی تیسری بڑی سیاسی قوت ہے جو پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کا متبادل ثابت ہو سکتی ہے۔ 2011 تک آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف نے نے عمران خان کو حقیقی سیاسی حریف سمجھنا شروع کردیا تھا۔
عمران خان کو "تبدیلی ” کے علاوہ جس لفظ سے پکارہ گیا وہ تھا ” یو ٹرن”۔ پی ٹی آئی کا سب سے بڑا اور مثبت "یو ٹرن ” 2013 کے عام انتخابات کے نتیجے میں آیا جب ان کی جماعت نے سیاست میں کچھ نئے اور ناتجربہ کار شخصیات کے ساتھ خیبر پختونخوا میں حکومت بنالی۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف پنجاب میں دوسری بڑی سیاسی جماعت کے طور پر ابھری ۔ یہ کہنا کہ عمران خان نے آصف علی زرداری کی قیادت میں چلنے والی پیپلز پارٹی کا صوبہ بھر سے صفایا کر دیا تو غلط نہیں ہو گا۔
ساٹھ سال سے زائد عمر کو پہنچنا وجہ تھی یا کچھ اور ، عام انتخابات میں کامیابی کی خاطر عمران نے "اسٹیٹس کو ” کے خلاف اپنےموقف کو تبدیل کر کے نامور سیاستدانوں کو پی ٹی آئی میں شامل کر لیا۔ اس بڑی تبدیلی اور”یو-ٹرن "کے باوجود خان صاحب کا بدعنوانوں رشوت ستانی کے خلاف سخت اقدامات جاری ر کھنے کا نعرہ 2016 میں پانامہ لیک سے زیادہ مقبول ہو گیا۔
نواز شریف اور عمران خان
شریف برادران نے پہلے روز سے ہی پاناما گیٹ کے معاملے کی سنگینی کو اہم نہیں سمجھا اور غیر ذمہ دارانہ انداز سے نمٹنے کی کوشش کی۔اور یہی وجہ رہی جو نواز شریف اور ان کا خاندان شدید مشکلات کا شکار ہو نے کا باعث بنی۔ پاناما اسکینڈل کے نتیجے میں 25 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بنچ نے نواز شریف کو نا اہل قرار دے دیا اور یوں عمران خان کی وزیراعظم ہاوس تک پہنچنے کی راہ ہموارہو گئی۔سال کا اختتام نواز شریف کے دوبارہ جیل جانے پر ہوا ۔ نئے سال کا آغاز بھی نواز شریف کے لیے پاناما اسکینڈل سے باہر نا آسکنے سے ہوا۔ اب یہ فی ہم صلہ تاریخ پر چھوڑتے ہیں کہ دو مرتبہ وزیراعلیٰ پنجاب اور تین بار وریز اعظم رہنے والے نواز شریف کی سیاست اور اقتدار کیسا رہا؟ اور ان پر بدعنوانی اور غیر قانونی ذرائع سے پیسہ باہر منتقل کرنے کے الزامات میں کتنی صداقت تھی۔
نواز شریف اور عمران خان دونوں میں ایک چیز مشترک دکھائی دی، وہ یہ کہ دونوں نے پاکستان کے شہری علاقوں کی سیاست کی، جس کی ابتداء 80 کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد ہوئی ۔ بھٹو خود تو جاگیردار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے مگر وہ پاکستانی سیاست کو عوام تک لے آئے۔
شریف خاندان کی سیاست میں انٹری نے سیاسی نظریے کی بنیاد تبدیل کر کے اس سے جاگیردارانہ تسلط ختم کر کے کاروبار ی سیاست میں تبدیل کر دیا۔
مولانا فضل الرحمٰن اور مذہبی جماعتی کے لیے مشکل سال
2018 کو مذہبی جماعتوں کے لیے برا سال کہا جائے تو بیجا نہیں ہو گا۔ سال بھر مذہبی جماعتیں مشترکہ حکمت عملی پر اتفاق رائے قائم کرنے اور ایک کامیاب سیاسی اتحاد بنانے میں ناکام رہے۔ متحدہ مجلس عمل کو دوبارہ فعال کرنے کی کوششیں ہوئیں تاہم اس کو خاطر خواہ حمایت حاصل نہیں ہو سکی۔ رہی سہی کسر خادم رضوی کی تحریک لبیک پاکستان نے پوری کر دی جس کی مقبولیت نے ایم ایم اے کی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ تاہم سال کے اختتام تک خادم رضوی اور ان کے ساتھی ملک سےغداری کے الزام میں قید اور مولانا فضل الرحمٰن اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف تھے۔ دسمبر میں مولانا طاہر اشرفی کا نام بھی بیرون ملک سے ان کے اکاونٹ میں خطیر سرمایا منتقل ہونے پر تحقیقات ہونے والوں کی فہرست میں شامل ہو چکا تھا۔
سال 2018 کا کوئی لمحہ، کوئی دن سیاسی لحاظ سے ہل چل سے خالی نہیں رہا۔ ہر دن ایک نئے اسکینڈل میں نئی جہت اور ایک نئے سیاسی بھونچال سے خالی نہیں رہا ۔کم از کم نواز شریف اور عمران خان کے لیے 2018 ایک یادگار سال رہے گا۔ ایک کے لیے اچھا تو دوسرے کے لیے برا۔ ایک وزیراعظم ہاوس پہنچ گیا اور دوسرا کوٹ لکھ پت جیل ۔ لگتا یہی ہے کہ 2019 بھی اسی آنکھ مچولی میں گذرے گا۔۔ عوام "تبدیلی” پر حکومت سے سوال کریں گے یا واقعی ایک "تبدیلی” کا مشاہدہ کریں گے۔ کسی نے سہی کہا کہ سیاست ممکنات اور امکانات کا کھیل ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ ایک نئی شکل اختیار کر تا ہے ۔ فی الحال عمران خان کی گڈی چڑھی ہوئی ہے اور مستقبل میں کیا ہونے والا ہے میرے لیے اندازہ کرنا ممکن نہیں کیوں کہ میں نا تو شیخ رشید ہوں اور نا ہی منظور وسان۔
آپ سب کو نیا سال اور نئی خبریں بہت مبارک ہو۔