رپورٹ: ایس ایم عابدی
جعلی اکاؤنٹس اسکینڈل میں ملوث آصف زرداری اور اومنی گروپ کی منی لانڈرنگ
کے حوالے سے چشم گشا حقائق سامنے آگئے ہیں۔ آصف زرداری کے دست راست انور
مجید اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا ساتھ کوئی ڈھکی چھپی کہانی نہیں
ہے۔ 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت آنے سے قبل اومنی گروپ کی صرف ایک شوگر
مل اور دو کمپنیاں تھیں۔ گذشتہ دس سالوں میں اومنی گروپ کے اثاثوں میں
اضافے کے ساتھ اب 91 کمپنیاں، صنعتیں اور فیکٹریاں ہیں۔ 2008ء میں پیپلز
پارٹی حکومت نے ٹھٹھہ میں 70 کروڑ اثاثوں کی مالک سرکاری شوگر مل اومنی
گروپ کو 22 کروڑ میں تھما دی جبکہ اب اومنی گروپ کے پاس سندھ کی 35 میں سے
18 شوگر ملیں ہیں۔ سندھ حکومت کی جانب سے گذشتہ سالوں میں سبسڈی کے نام پر
منتقل ہونے والے 11 ارب روپے میں سے ایک بڑا حصہ اومنی گروپ کو دیا گیا۔
2008ء سے آر او پلانٹ اور دیگر کمپنیوں کو 20 ارب روپے کی پیشگی ادائیگیاں
کی گئیں۔ میگا منی لانڈرنگ اسکینڈل میں جے آئی ٹی کو 14 کمپنیز کا سراغ
لگانا تھا مگر اومنی گروپ کی 90 کمپنیز کے حوالے سے ثبوت ہاتھ آگئے۔ اومنی
گروپ پر بلاول ہاؤس کراچی، اسلام آباد، نوڈیرو اور نواب شاہ کے لئے ایک
کروڑ تیس لاکھ ماہانہ اخراجات کی ادائیگی کا بھی الزام ہے۔ نیب نے مراد علی
شاہ کے خلاف چار کیسز میں تحقیقات شروع کر دی ہیں، ایک کیس میں ان کا بیان
بھی ریکارڈ کیا گیا ہے جبکہ دوسری جانب منی لانڈرنگ کیس میں سابق صدر آصف
زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سے بھی تحقیقات کی حتمی رپورٹ سپریم
کورٹ میں جمع کروا دی گئی ہے۔
میگا منی لانڈرنگ کیس میں ایک کے بعد ایک حیران کن انکشاف
سندھ میں میگا منی لانڈرنگ کا کیس کیا کھلا، ایک کے بعد ایک حیران کن
انکشاف سامنے آنے لگا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر ایف آئی اے نے کھوج لگایا تو
پتہ چلا کہ بڑے بڑے سیاستدان اور نامی گرامی کمپنیاں مبینہ طور پر جعلی
اکاؤنٹس کے ذریعے ہیر پھیر میں ملوث ہیں۔ جعلی اکاؤنٹس اسکینڈل میں ملوث
آصف علی زرداری کے خلاف منی لانڈرنگ سمیت جعلی بینک اکاؤنٹس کا معاملہ پہلی
مرتبہ دو ہزار پندرہ میں اس وقت اٹھایا گیا، جب اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایف
آئی اے کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔ دو ہزار
تیرہ سے دو ہزار پندرہ کے دوران چھ سے دس مہینوں کے لئے کھولے گئے اکاؤنٹس
کے ذریعے پینتیس ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی گئی۔ ایف آئی اے کی انکوائری
میں مارچ دو ہزار پندرہ میں چار بینک اکاؤنٹس مشکوک ترسیلات میں ملوث پائے
گئے۔ ابتدائی تحقیقات میں تمام بینک اکاؤنٹس اومنی گروپ کے نکلے لیکن سیاسی
دباؤ پر انکوائری کو روک دیا گیا۔
دسمبر دو ہزار سترہ میں اسٹیٹ بینک کو بھجوائی جانے والی ایس ٹی آرز میں
مزید انتیس جعلی اکاؤنٹس منظر عام پر آئے، جن میں سمٹ بینک کے سولہ، سندھ
بینک کے آٹھ اور یو بی ایل کے پانچ اکاؤنٹس تھے۔ اکیس جنوری دو ہزار اٹھارہ
کو ایک بار پھر انکوائری کا آغاز کیا گیا۔ تحقیقات میں ابتداء میں صرف
بینک ملازمین سے پوچھ گچھ کی گئی۔ اگست دو ہزار اٹھارہ میں ایف آئی اے نے
آصف زرداری کے قریبی ساتھی انور مجید اور ان کے بیٹے غنی مجید کو گرفتار
کیا اور چوبیس اگست تک کا جسمانی ریمانڈ حاصل کیا۔ ستائیس اگست کو آصف
زرداری اور فریال تالپور جعلی اکاؤنٹس سے مبینہ پینتیس ارب روپے کی منتقلی
میں ایف آئی اے کے سامنے پیش ہوئے۔ چوبیس ستمبر کو ایف آئی اے نے سپریم
کورٹ میں مزید تنتیس مشکوک اکاؤنٹس کا دعویٰ کیا، جن سے اربوں روپے بیرون
ممالک منتقل کئے گئے جبکہ سنتیالیس ایسی کمپنیوں کا سراغ لگایا گیا ہے، جن
کا براہ راست تعلق اومنی گروپ سے ہے۔