بلاگ

استاد امانت علی خان کی 42 ویں برسی ہے

برصغیر میں کلاسیکی موسیقی کے پٹیالہ گھرانے کے استاد امانت علی خان 1932میں غیر منقسم ہندوستان میں پنجاب کے علاقے ہوشیار پور میں پیدا ہوائے موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنے والد اختر حسین خان سے حاصل کی۔

موسیقی کی باقاعدہ تعلیم کے حصول کے بعد امانت علی خان اپنے بھائی استاد فتح علی خان کے ساتھ مل کرگایا کرتے تھے جلد ہی یہ جوڑی مقبولیت کی چوٹی پر پہنچ گیا بعد ازاں ریڈیو پاکستان میں موسیقی کے سُر بکھیرنے لگے اور قبولیت سند عام پائی۔

خدا نے استاد امانت علی خان کو میٹھے لہجے اورعمدہ آواز سے نوازا تھا انہوں نے کم عمری میں ہی دادرا، ٹھمری، کافی اور غزل کی گائیکی میں مہارت حاصل کر لی تھی۔

یوں جلد ہی استاد امانت علی خان نے غزل گائیکی میں اپنے منفرد اندازکے باعث اپنے ہم عصرگلوکاروں جن میں استاد مہدی حسن خان،استاد غلام علی اوراعجاز حضروی میں اپنا ایک الگ مقام اورشناخت بنائی۔

آج بھی استاد امانت علی خان کے گائے ہوئے کلاسیکی گیت اور غزلیں سن کر ان کے مداحوں کے دلوں کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں۔

قیام پاکستان کے بعد استاد امانت علی خان اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ مستقل طور پر لاہور شفٹ ہو گئے اور منٹو پارک کے قریبی علاقے میں رہائش پذیر ہو گئے۔

ان کے گائے ہوئے چند مشہور گیتوں میں ’ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے‘، ’چاند میری زمیں پھول میرا وطن‘، ’موسم بدلا رت گدرائی اہل جنوں بے باک ہوئے‘ اور ’یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے‘ بھی شامل ہیں۔

استاد امانت علی خان کا انتقال 42سال کی عمرمیں1974ء میں ہوا وہ محض 42 برس جئے کیا خبر تھی کہ اُن کے وہ جملے جو وہ اکثر جنی محافل میں کہا کرتے تھے یوں سچ ثابت ہو جائے گا وہ کہا کرتے تھے، ہمیں رضاکارانہ طور پر اپنی عمریں کم کر لینی چاہئیں، تاکہ تھوڑی تھوڑی آسودگی سب کے حصے میں آجائے۔

تاہم موسیقی کا یہ سفر یہاں تمام نہیں ہوا اور اُن کے بیٹے شفقت امانت علی جدید اور کلاسیکی موسیقی کی امتزاج کے ساتھ گلوکاری میں مصروف ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close