بلاگ

سیکس ورکر اورگداگر ہیں ہم

فیملی پڑھی لکھی ہوتو والدین اور بہن بھائی مجھ جیسے انسانوں کو پڑھا لکھا لیتے اور بری علتوں سے بچاکر اچھی تربیت کرتے ہیں ۔ماشاء اللہ میں گریجویٹ ہیجڑا ہوں۔مجھے یہ بتانے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی کیونکہ اس جنس کو اور کیا نام دیا جاسکتا ہے۔مجھے لکھنے کا بہت شوق ہے اس لئے میں آپ کو صرف اپنی برادری سے متعلق ہی blog بھیجوں گی ،ان کی سرگرمیاں ،دکھ سکھ۔ سب آپ کے ساتھ بانٹوں گی کیونکہ میں نے صحافت کی باقاعدہ تربیت لی ہے اور ایک ہیجڑے صحافی کے طور پربے کسوں کی اس دنیا کے مسائل آپ سے شئیر کروں گی‘‘
نام ببلی لیکن کام ببلوجیسے۔۔۔یہ ایک خطرناک خواجہ سراہے جو گاہک کی نفسیات کے ساتھ کھیلتا ہے۔اس میں ’’مردم شناسی‘‘ کوٹ کوٹ کر بھری ہے،ایسا لگتا ہے جیسے ہر کوئی اسکے سامنے کھلی کتاب ہوتا ہے لیکن وہ خود کو بند کتاب کی طرح رکھتی ہے۔میں نے کئی بار اسکو دیکھا ،وہ مجھے دیکھتے ہی چونک سی جاتی ہے ،ایک شام میں اس سے ملی تو کئی باتیں ہوئیں۔
شام ڈھلتے ہی وہ معروف شاہراؤں کے چوک میں بھیک مانگتا دکھائی دیتی ہے اور گاڑی میں بیٹھے لوگوں کی حیثیت دیکھ کر مانگنا شروع کردیتی ہے۔ایک رات وہ اقبال ٹاؤن میں ہوگی تو اگلے روز گلبرگ میں ۔اسکے بقول اس نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے ۔اسکی عمر بیس سال ہے لیکن لگتا ہے اسکی روح اسیّ سال پرانی ہے۔کہہ رہی تھی’’ آپ نے دیکھا ایک ڈیڑھ سال سے خواجہ سرا ڈینگی مچھروں کی طرح چوکوں میں کھڑے بھیک مانگتے نظر آرہے ہیں‘‘
’’ کیا انہیں ناچ گانا نہیں آتا یا کام میں مندا ہے‘‘۔سوال کیا
’’ ناں جی کام میں مندا کہاں ۔ان کی تو لاٹری نکل آئی ہے۔یہ گاتے بھی ہیں ،گلی محلوں میں جاتے اور بھیک مانگتے ہیں ۔سب نے اپنے اپنے علاقے بانٹ رکھے ہیں ۔ان سڑکوں پر بھی ہمارا ٹھیکہ ہے ،یہاں مانگتے بھی ہیں اور گاہک مل جائے تو ساتھ چلے بھی جاتے ہیں۔سمجھ لو یہ بکنگ سنٹرز ہیں۔‘‘
’’ کمال ہے ۔سر عام ؟‘‘
’’ تو اور کیا ۔۔۔ کون پوچھتا ہے۔ میں تو کہتی ہوں کہ گورنمنٹ ہمارے وظیفے مقرر کردے اور ہم ذلت کی زندگی سے بچ جائیں،ورنہ خواجہ سراؤں کاگناہ انہیں لے ڈوبے گا‘‘ ببلی کا کہنا ہے کہ لاہور کی سڑکوں کا ہی یہ حال نہیں پورے ملک میں خواجہ سرا سیکس ورکر کے طور پر زندہ ہیں ،لیکن گداگر بن کر وہ گاہکوں کو تلاش کرتے ہیں ۔کراچی میں گلشن اقبال،لی مارکیٹ ،لیاری جیسے علاقوں میں ہم جنس پرستوں کا عام راج ہے تو لاہور میں بھی ایسے خفیہ ٹھکانے بن چکے ہیں جہاں خواجہ سراؤں اور عام نوجوانوں میں ہم جنس پرستی کی وباء پھیل رہی ہے اور ان کی کوئی روک ٹوک نہیں ۔
ببلی کا استدلال ہے کہ ہاتھ کاٹنے ہیں تو پہلے کھانا اور عزت تو دو۔پاکستان میں کاٹتے پہلے ہیں گنتے بعد میں ہیں۔بہت سے غیرت مند خواجہ سرا گداگری کرتے یا ناچ گانا کرتے ہیں لیکن لت سب میں موجود ہے۔کیونکہ یہ انکی فطرت کا تقاضا ہے۔حکومت وظیفے بھی دے اور شیلٹر ہومز بھی بنائے جہاں ان کو کوئی فن سکھایا جاسکتا ہے۔اگر یہ نہیں ہوسکتا تو انہیں بھی محکمہ منصوبہ بندی والوں سے سیکس میں تحفظ برتنے کی تربیت دلادو۔
پاکستان میں خواجہ سرؤں کو معاشرے کا فعال فرد بنانے کے لئے مختلف حکومتوں نے انکی رجسٹریشن کا کام کیا ہے اور انکے لئے فلاحی منصوبوں پر عمل کرنے کی دہائی بھی دی جاتی رہی ہے ،لیکن دیکھنے میں آرہا ہے کہ خواجہ سراؤں میں بھی انکے سرپرست ایسے ہیں جو مافیاز بن چکے ہیں اور ساری مراعات وہ خود لیتے یا جن کے وہ کفیل ہوتے ہیں ان سے سیکس ورکر کا کام لیتے ہیں۔یہ ایسی تلخ سچائیاں ہیں جو کھلی آنکھوں سے دیکھی جاسکتی ہیں لیکن کوئی بھی ان سے آنکھیں چار نہیں کرتا کیونکہ ہر کسی کو اپنے گریبان میں جھانکنا اچھا نہیں لگتا۔اگر ہم حکمرانوں نے اسطرح کا رویّہ جاری رکھا تو ایک دن یہاں ’’قوم لوط ‘‘ کا راج ہوگا۔ پھر نہ کہناشمیم نے بتایا نہیں،ہاں۔۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close