رپورٹ: ایس ایم عابدی
فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر انجینئر حاجی دارو خان نے ایس بی سی اے کی جانب سے سپریم کورٹ کے حکم کی آڑ میں کراچی شہر میں ریگولرائزڈ عمارات گرانے کے نوٹس جاری کرنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے اقدام سے ملک کے میگا سٹی میں سینکڑوں اربوں روپے کی سرمایہ کاری رک جائے گی، ایس بی سی اے ایسو سی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز (آباد) کے ساتھ مل کر شہر میں تعمیر غیر قانونی عمارات کی فہرست مرتب کرے، تاکہ اس معاملے کو حل کیا جائے، سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ایف پی سی سی آئی ایپکس کورٹ سے رجوع کرے گی۔ یہ بات انہوں نے فیڈریشن ہاؤس میں آباد رہنماؤں کے ساتھ صحافیوں سے بات چیت میں کہی۔ اس موقع پر آباد کے چیئرمین محمد حسن بخشی، آباد کے سرپرست اعلیٰ محسن شیخانی، سینیئر وائس چیئرمین انور داؤد، وائس چیئرمین عبدالکریم آڈھیا، سدرن ریجن کے چیئرمین ابراہیم حبیب، محمد حنیف گوہر، ایف پی سی سی آئی کے سینیئر نائب صدر مرزا اختیار بیگ اور دیگر بھی موجود تھے۔
واضح رہے کہ عدالتی حکم کی آڑ میں ایس بی سی اے نے کراچی کی ہزار سے زائد بلڈنگوں کو گرانے کے نوٹس جاری کئے تھے، جس پر کراچی کے تمام بلڈرز میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے، اس عمل سے ہزاروں لوگوں کے بےروزگار ہونے کے ساتھ ساتھ لاکھوں شہریوں کے بے گھر ہونے کا خدشہ بھی پیدا ہوگیا ہے۔ حاجی دارو خان اچکزئی نے کہا کہ کراچی شہر کا قومی آمدنی میں 20 فیصد جبکہ صنعتی پیداوار میں 30 فیصد حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایس بی سی اے کو عدالت نے غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئیں عمارات کی فہرست طلب کی تھی، تاہم ایس بی سی اے نے عدالتی حکم کی غلط تشریح کرتے ہوئے قانونی طور پر تعمیر کی گئیں رہائشی پلاٹوں سے کمرشل میں تبدیل شدہ سینکڑوں عمارتوں کو نوٹسز جاری کرکے شہر میں افراتفری پیدا کی ہے، جس کی ایف پی سی سی آئی مذمت کرتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایس بی سی اے نے خود مذکورہ عمارات کو ریگولراز کیا ہے، جس کی مد میں ایس بی سی اے کو اربوں روپے کا ریونیو حاصل ہوا۔
انہوں نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ 3 فروری تک سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ایف پی سی سی آئی عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے خلاف ایپکس کورٹ سے رجوع کرے گی۔ حاجی دارو خان کا کہنا تھا کہ کراچی کی تعمیراتی صنعت کو زوال ہوا تو اس کے نتیجے میں 72 ذیلی صنعتوں کا پہیہ رک جائے گا، جس کے نتیجے میں سینکڑوں اربوں روپے کی سرمایہ کاری رک جائے گی اور 5 لاکھ افراد بے روزگار ہو جائیں گے۔ اس موقع پر محسن شیخانی نے کہا کہ ایس بی سی اے نے ماضی میں کی گئی اپنی کرپشن چھپانے کے لئے عدالتی حکم کی آڑ میں ریگولرائزڈ عمارتوں کو گرانے کے نوٹسز جاری کئے۔ انہوں نے کہا کہ آباد کسی بھی غیر قانونی عمل کی کبھی بھی حمایت نہیں کرے گی، ایس بی سی اے نے جن پلاٹوں پر تعمیر شدہ عمارتوں کو گرانے کے نوٹسز بھیجے ہیں، ان پلاٹوں کو ریگولرئز کرانے کے لئے فیس کی مد میں اربوں روپے ادا کئے گئے ہیں، جبکہ سپریم کورٹ کی 5 رکنی بینچ نے بھی منظوری دی ہے، مذکورہ عمارتوں کے نقشے بھی منظور کئے گئے اور محکمہ تحفظ ماحولیات سے ان کی این او سی بھی جاری ہوئی ہیں۔
محسن شیخانی نے وزیر بلدیات سندھ سعید غنی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وزیر بلدیات نے اپنی وزارت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے قانونی طور پر تعمیر شدہ عمارتوں کو گرانے سے انکار کرکے کراچی کے ساتھ وفاداری کا ثبوت دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایس بی سی اے کی ملی بھگت سے کراچی شہر میں رفاحی پلاٹوں، پارکوں، سیوریج نالوں پر جو تعمیرات کی گئیں، ایس بی سی اے انہیں تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس موقع پر چیئرمین آباد محمد حسن بخشی نے کہا کہ ایس بی سی اے کے نوٹسز سے شہر کی تاجر برادی میں حوف و ہراسمنٹ پھیل گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ 15 برسوں کے دوران کراچی شہر میں تعمیر ہونے والی 930 عمارتوں کو کمرشلائز کیا گیا ہے اور اس مد میں 25 ارب روپے حکومت کو ادا کئے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ایس بی سی اے سے غیر قانونی طور پر تعمیر عمارات کی فہرست مانگی تھی، ایس بی سی اے جان بوجھ کر عدالتی حکم کی غلط تشریح کرکے اپنی کرپشن پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے، عدالت عظمیٰ نے 22 جنوری کے حکم میں واضح طور پر کہا ہے کہ رفاحی پلاٹوں پر تعمیرات روکی جائیں اور رہائشی پلاٹوں کو کمرشل میں تبدیل نہ کیا جائے جبکہ غیر قانونی طور پر تعمیر شدہ عمارات کی فہرست پیش کی جائے۔ حسن بخشی نے کہا کہ پہلے ہی کراچی شہر میں 18 ماہ تک کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر پر پابندی کے باعث تعمیراتی سرگرمیاں ٹھپ ہوکر رہ گئی تھیں اور لاکھوں افراد بےروزگار ہوگئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ 11 دسمبر 2018ء کو سپریم کورٹ نے کراچی میں کثیرالمنزلہ عمارتوں کی تعمیر کی اجازت دی، لیکن سندھ حکومت نے اس حکم کی توثیق جنوری میں کی تھی، ابھی کراچی میں تعمیراتی کام شروع بھی نہیں ہوا کہ ایس بی سی اے نے سپریم کورٹ کے حکم کی آڑ میں تمام پروجیکٹس کی منظوری روک دی، جو کراچی کے تاجروں اور شہریوں پر ظلم کے مترادف ہے۔