رنگوں کا انتظار
دو سال پہلے جب سری نگر تباہ کن سیلاب کی زد میں تھا تو مسعود حسین کی مصوری بھی جہلم کے پانیوں سے محفوظ نہ رہ سکی۔انھیں اپنے تخلیقی سرمایے کے زیاں کا غم تو ہے لیکن شاید رنگوں کے ذریعے اس کا اظہار ممکن نہ تھا کیونکہ ان کی تصویروں میں رنگ پہلے سے ہی سیاہ تھے۔
مسعود حسین کا شمار کشمیر کے بہترین مصوروں میں ہوتا ہے، وہ 35 برس فائن آرٹس کے استاد رہے ہیں اور کشمیر میں علیحدگی پسند تحریک کے آغاز سے ہی انھوں نے’ٹرمائل‘ یا شورش پر کام کیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ بدقسمتی سے تب سے ہی میں نےاپنا سٹائل تبدیل کیا، اس سے پہلے میرے کام میں کافی رنگ ہوا کرتے تھے۔۔۔لیکن پھر میں نے اپنے ارد گرد جو دیکھا میرے کام میں بھی اس کی جھلک نظر آنے لگی۔
اپنے نئے گھر کی ایک منزل کو انھوں نے سٹوڈیو میں تبدیل کیا ہے جہاں وہ نئے نئے تجربات کرتے ہیں۔ ان کے فن پاروں میں کمپیوٹر کے پرانے پرزوں کا کافی استعمال ہے جس کے ذریعے وہ یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے دن اب دور نہیں۔
دیوار پر ایک کلاشنکوف کی تصویر ہے، جس کی طرف بہت سے ہاتھ بڑھ رہے ہیں۔
’ کلاشنکوف کے بارے میں کہتے ہیں کہ اٹ از گارنٹیڈ ٹو کل! اس رائفل نے لاکھوں لوگوں کو مارا ہے لیکن یہ تصویر ابھی ادھوری ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ موجود شورش نے بہت متاثر کیا ہے۔’ اس مرتبہ جو شورش چل رہی ہے اس نے میرے رونگٹے کھڑے کر دیے۔۔۔ایک مہینے تک میں کوئی کام نہیں کرسکا۔۔۔پیلٹ گنز کے چھروں سے زِخمی بچوں کو دیکھ کر مجھے بہت غم ہوا، میں نے سوچا کہ مجھے یہ پیغام دینا چاہیے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ غلط ہے۔‘
دیکھنے والوں تک اپنا پیغام آسانی سے اور جلدی پہنچانے کے لیےمسعود حسین نے پہلی مرتبہ ڈیجیٹل آرٹ کا سہارا لیا۔
’میں نے ڈیجیٹل تصویریں بنائیں، بس جو دیکھا اس کی عکاسی کی اور انھیں سائلنٹ امیجز یا خاموش تصویروں کا ٹائٹل دیا، کوئی اور عنوان نہیں۔ اور یہ تصویریں کافی لوگوں تک پہنچیں۔‘
مسعود حسین کہتے ہیں کہ ’ جو نوجوان اب سڑکوں پر اترے ہیں وہ اسی ماحول میں پلے بڑھے ہیں، انھوں نےکچھ اور دیکھا ہی نہیں ہے۔۔۔اور حکومت کی غلطی یہ ہے کہ اس نے کبھی ان کے لیے کچھ نہیں کیا۔۔۔یہاں ذہنی تناؤ بہت زیادہ ہے اور بہت لوگ ڈپریشن کا شکار ہیں۔۔۔حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ زور زبردستی سے مسئلے کو دبانا کوئی حل نہیں ہے۔‘
کشمیر کا شمار دنیا کے حسین ترین علاقوں میں کیا جاتا ہے،’مصور جدھر نگاہ گھمائے اس کے لیے سبجیکٹ موجود ہے۔۔۔۔وہ کچھ بھی پینٹ کرسکتاہے، لیکن میرے کام کو دیکھ لیجیے، اس میں رنگ کہیں نہیں ہیں، بس ڈارک کلرز کا استمعال ہو رہا ہے۔ میں اس افسردگی سے باہر نکلنا بھی چاہتا ہوں لیکن نہیں نکل پاتا ہوں کیونکہ یہ خوبصورتی مجھے نظر نہیں آتی، ہاں جب یہاں حالات بہتر ہوتے ہیں تو میں بھی اپنی تصویروں میں خوب رنگ بھرتا ہوں۔
مسعود حسین کا کہنا ہے کہ وادی کے نوجوان فنکاروں کے کام میں بھی خود بہ خود تشدد کی جھلک نظر آتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ کشمیر کا عام آدمی پھنسا پڑا ہے، یہاں کے لوگ تشدد میں یقین نہیں رکھتے تھے۔۔۔یہاں تقسیم کے وقت بھی کوئی ہندو مسلم فساد نہیں ہوا۔ ہم نے بچپن سے سنا ہےکہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے اور اس مسئلے کو پر امن طور پرحل کیا جانا چاہیے۔
کشمیر میں تین مہینے سے زندگی مفلوج ہے۔ لوگ کبھی کرفیو کی وجہ سے اپنے گھروں میں محصور ہوتے ہیں اور کبھی ہڑتالوں کی وجہ سے۔ جگہ جگہ فوج اور نیم فوجی دستے تعینات ہیں، سڑکوں پر خاردار تار پڑے ہیں، سکول کالج بھی بند ہیں اور حالات کے عنقریب معمول پر واپسی کے آثار نظر نہیں آتے۔
مسعود حسین کے مطابق ’سب چاہتے ہیں کہ حالات سدھر جائیں، میں بھی یہی چاہتا ہوں کیونکہ میں ویسے ہی افسردگی کا شکار ہوں اور میرا اپنا کام ہی مجھے اور افسردہ کردیتا ہے۔۔۔اگر حالات سدھر جائیں تو ہم بھی اپنے کام میں رنگ بھرنا شروع کردیں گے۔ یہ ہماری خواہش ہے۔