کون سا میڈیا ہاؤس جنگ لائیو نشر کرے گا
سوشلستان پر جنگ کا بخار کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا اور اب تو یہ بات اظہر من الشمس ہوتی جا رہی ہے کہ سرحدوں پر جنگ ہو نا ہو میڈیا پر زوروشور سے جاری ہے۔ دیکھتے ہیں کہ اس ہفتے سوشل میڈیائی اور روایتی میڈیا کے سپاہی اور جرنیل کیا کرتے رہے ہیں۔
انڈین جرنیلوں کا اجلاس
اب جنگی صورتحال ہو تو جرنیلوں کا اجلاس ہونا معمولی کی بات نہیں مگر بھارتی صحافی راہول کنول کے مطابق انڈین فوج کے سربراہ نے سینئر ریٹائرڈ جرنیلوں کا اجلاس طلب کیا جس میں یہ طے کیا جائے کہ یہ جرنیل میڈیا پر کیا بولیں گے اور اخباری مضامین میں کیا لائن لیں گے۔
انڈین ویب سائٹ سکرول ان کے ایڈیٹر روہان وینکٹ نے لکھا کہ ‘صحافت قوم پرستی کی تنگ نظری میں پھنس گئی ہے۔’
زویا طارق کا کہنا تھا کہ ‘جنگ کے طبل بجانے والے سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے لوگوں کو تحقیق کرنی چاہیے کہ جنگیں کتنی تباہی کُن ہوتی ہیں خصوصاً ایٹمی طاقتوں کے درمیان جنگیں۔’
حنا جو گستاخ کے نام سے ٹویٹ کرتی ہیں نے سوال پوچھا کہ ‘کس میڈیا ہاؤس کو جنگ براہِ راست نشر کرنے کے حقوق ملیں گے؟ اس میں کس اینکر کا لیڈ رول ہو گا؟’
مگر اس ساری صورتحال میں پاکستانی اور انڈین میڈیا کے لیے جو سب سے بڑا لمحہ فکریہ ہے وہ یہ ہے کہ کتنے لوگ ہیں جو حقیقت میں اس کی نشریات پر اعتبار کرتے ہیں؟
نقوی نے لکھا کہ ’انڈیا اور پاکستان میں ایسا کوئی ایک بھی میڈیا کا ادارہ نہیں ہے جس پر آپ اب اچھی اور غیر جانبدارنہ معلومات حاصل کر سکیں۔’
اور اگر غور کیا جائے تو یہ ایک انتہائی خطرناک صورتحال ہے کیونکہ لوگ اعتبار کریں تو کس پر کریں؟
کیونکہ فرحان حسین کے بقول ‘آخر کوئی کیوں جوہری تنازع چاہے گا جو انہیں ہلاک کرے سوائے اس کے کہ وہ خودکشی پر آمادہ ہو۔ اس صورت میں اسے ایک ڈاکٹر کی ضرورت ہے جنگ کی نہیں۔’