بلاگ

کوئلے کی غیرقانونی کان کنی سے انسان اور ہاتھی دونوں متاثر

انڈیا دنیا میں سب سے زیادہ کوئلہ پیدا کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے اور اس کی نصف سے زیادہ کمرشل توانائی کوئلے سے حاصل ہوتی ہے لیکن یہاں غیر منضبط یا غیر قانونی کان کنی کے سبب صحت اور ماحولیات کے سنگین مسائل پیدا ہوئے ہیں اور اس وجہ سے انسانوں اور ہاتھیوں کے درمیان تصادم میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

کوئلے سے مالا مال وسطی ریاست چھتیس گڑھ میں اڑتی ہوئی راکھ سے وہاں کے لوگوں کو سانس لینے میں پریشانی اور تپ دق جیسی بیماریوں کا سامنا ہے لیکن ان کے مسائل یہیں ختم نہیں ہوتے۔

کوئلے کی کان کنی کے لیے جنگل صاف کیے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے خوراک کی تلاش میں جنگلی ہاتھی دیہات کا رخ کر کے لوگوں پر حملے کر رہے ہیں۔

فوٹوگرافر سبرت بسواس نے انڈیا کے کوئلے پر انحصار سے پیدا ہونے والے نتائج کو تصاویر کے ذریعے پیش کیا ہے۔ بسواس کہتے ہیں: ‘کان کنی کے سبب ہزاروں ایکڑ جنگل ختم ہو گئے ہیں۔ خوراک کی تلاش میں ہاتھی کھیتوں کی جانب متوجہ ہوتے ہیں اور گاؤں میں داخل ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں انسان اور ہاتھی کے درمیان تصادم میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔

حکام کے مطابق سنہ 2005 سے 2014 کے درمیان چھتیس گڑھ میں ہاتھیوں کے ذریعے املاک کو نقصان پہنچنے کے 8657 واقعات اور فصلوں کو نقصان پہنچانے کے 99152 واقعات پیش آئے ہیں۔

ایک 70 سالہ خاتون روجری کھلکھو کے گھر پر ہاتھیوں کے ایک جھنڈ نے تقریبا ایک سال قبل حملہ کر دیا تھا۔

انھوں نے بتایا: ‘جب ہاتھی ہمارے گھر میں گھسے، اس وقت ہم سو رہے تھے۔ ہم کسی طرح بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے لیکن مکان کا ایک حصہ میرے پاؤں پر گرا جس سے میرا پاؤں ٹوٹ گيا۔ میرے شوہر نے میری جان بچائی۔’

انھیں دس ہزار روپے معاوضہ ملا تھا لیکن یہ ان کی گھر کی تعمیر اور علاج کے لیے کافی نہیں۔

اس کے علاوہ ریاست میں بجلی کے جھٹکے سے ہاتھیوں کی موت کے واقعات عام ہیں۔

ان واقعات میں ریاست کے سب سے متاثرہ علاقے دھرم جے گڑھ کے علاقے ہیں جہاں اب تک 30 ہاتھیوں اور 75 انسانوں کی موت ہو چکی ہے۔

سنہ 2009 میں ایک کھلی ہوئی کان سے 40 سالہ کانتی بائی ساؤ کو اپنا گھر اور کھیت گنوانا پڑا۔

معاوضے کے طور پر انھیں دو لاکھ روپے اور خاندان کے ایک فرد کو ملازمت دینے کا وعدہ کیا گيا لیکن انھیں کچھ نہیں ملا۔ گذشتہ سال ان کی بیٹے کی سانس کی تکلیف کے سبب موت ہو گئي۔

گرجا بائی چوہان نے کہا: ‘یہاں نہ سانس لینے کو تازہ ہوا ہے اور نہ پینے کو تازہ پانی۔ سب کچھ کو کوئلے نے چھین لیا ہے۔ ہم اس کان کے پاس تقریبا دس سالوں تک رہے اور بےبسی کے عالم میں اپنے کنویں کو سوکھتے دیکھتے رہے۔ جنگل غائب ہو گئے اور کھیت بنجر۔’

کوربا میں ایک تھرمل پاور پلانٹ سے کوئلے کی راکھ ایک تالاب میں جمع کی جا رہی ہے۔

‘زمین حاصل کرتے وقت حکام نے جو وعدہ کیا تھا اسے پورا نہیں کیا گیا۔ اس کان کے وجود میں آنے سے ہم نے اپنی تقریبا آٹھ ایکڑ زمین گنوا دی۔ انھوں نے ہمیں تاریک مستقل کی جانب دھکیل دیا جہاں نہ رہنے کے لیے صحت بخش فضا ہے اور نہ سانس لینے کے لیے۔

ماحولیات کے لیے کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ چھتیس گڑھ کے بجلی گھروں سے ہر سال پانچ کروڑ ٹن راکھ پیدا ہوتی ہے لیکن ان میں سے نصف کا بھی پھر سے استعمال نہیں ہوتا تاکہ آلودگی میں کمی ہو۔

کوئلے سے پیدا شدہ راکھ میں آرسینک، بیریئم اور پارۂ سیماب جیسے عوامل کے ذرات ہوتے ہیں اور غیر محفوظ ڈھنگ سے اس کے جمع ہونے پر زیر زمین پانی بھی آلودہ ہو سکتا ہے۔

بسواس کہتے ہیں: ‘ہر طرف راکھ ہے۔ جب ہوا چلتی ہے تو ہر چیز پر راکھ کی تہیں جم جاتی ہیں۔ سڑک ہو یا گھر، بعض اوقات ہماری عینکوں پر بھی راکھ کی خفیف سی تہہ جم جاتی ہے۔

55 سالہ روہت راٹھیا کو ٹی بی ہے اور وہ ایک کھلی کان کے پاس والے گاؤں میں رہتے ہیں جہاں کان کنوں میں سانس کی بیماریاں عام ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close