بلاگ

یوم حقوق نسواں ۔۔۔ میرا جسم میری مرضی۔۔۔؟؟

تحریر: تصور حسین شہزاد

پوری دنیا میں 8 مارچ کو ” یوم حقوق نسواں ” کے عنوان سے منایا جاتا ہے۔ یہ دن پاکستان میں بھی ایک عرصے سے منایا جا رہا ہے، مگر گذشتہ برس پاکستان میں اس دن کو منانے والوں نے متنازع پلے کارڈز اٹھا کر نئے انداز میں اپنی شناخت بنائی اور اس سال تو حد ہی ہوگئی۔ ہماری قوم اس معاملے میں بھی حسب روایت دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی۔ ایک اس کے حق میں اور دوسرا اس کی مخالفت میں نکل کھڑا ہوا۔ ہر طبقے نے اپنے اپنے نظریات کا بڑھ چڑھ کر پرچار اور دفاع کیا۔ یہاں تک کہ بعض من چلوں نے تو "یوم حقوق مرداں” منانے کا بھی مطالبہ کر دیا۔ بہرحال اس ایونٹ کی انتظامیہ کے کچھ افراد سے بھی بات ہوئی۔ انہوں نے بھی تسلیم کیا کہ پلے کارڈز پر درج "نعرے” درست نہیں تھے، مگر حکام کی توجہ حاصل کرنے کیلئے ایسا کیا گیا، جبکہ اس مارچ کی مخالفت کرنیوالوں کے دلائل زیادہ وزنی ہیں۔

پہلے تو اس لبرل طبقے کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا تھا۔ اس لئے اس میں لبرل ازم کی گنجائش نہیں۔ پاکستان کے عوام معتدل مزاج لوگ ہیں۔ یہ ضیاء الحق کا شدت پسندانہ اسلام چاہتے ہیں، نہ پرویز مشرف کی روشن خیالی پسند کرتے ہیں۔ یہ لوگ اعتدال پسند ہیں۔ درمیان میں رہتے ہیں اور میرے خیال میں یہی بہترین راستہ ہے۔ جب ہم کسی بھی نظریئے یا سوچ کو شدت پسندی کی حد پر لے جائیں گے تو پھر نتیجہ تصادم ہی نکلے گا۔ "عورت مارچ” نے بھی صرف متنازع پلے کارڈ ہی نہیں اٹھائے بلکہ اسلامی اقدار تک کی نفی کی۔ کراچی میں ہونیوالے مارچ میں شریک ایک "بزرگ” جنہوں نے اپنا نام سوچ کر محمد مظاہر بتایا، فرما رہے تھے کہ پاکستان سے نکاح ہی ختم کر دینا چاہیئے، یہ نکاح ہی ہے جو عورت کو "قیدی” بنا دیتا ہے۔ یہ پہلے نہیں تھا بلکہ انگریز نے 1825ء میں یہ ہم پر ایسے ہی  مسلط کر دیا، جیسے اس نے ہم پر انگریزی مسلط کر دی۔

تو حضور یہ کون سے نظریات پھیلائے جا رہے ہیں۔؟ پاکستان میں ایسا ممکن ہے؟ ہم نبی رحمت (ص) کے ماننے والے ہیں۔ نکاح انگریز کا مسلط کردہ قانون نہیں بلکہ سنت رسول کریم (ص) ہے۔ ہم نکاح اس لئے کرتے ہیں کہ ہمارے نبی (ص) نے اس کا حکم دیا تھا۔ عورت مارچ کی انتظامیہ اس پر خاموش ہے کہ یہ نظریات کیسے ہیں، ان کے پیچھے کون ہے، یہ کس لئے ایسا کیا جا رہا ہے، جبکہ زمینی حقائق یہی بتا رہے ہیں کہ مارچ کا اہتمام کرنیوالے پاکستان دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ یہ پاکستان کی اسلامی شناخت مٹانے کے درپے ہیں۔ یہ نہیں چاہتے کہ پاکستان کی ریاست "مدینہ کی طرز” پر چلے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے بے ہودہ اور غیر اسلامی و غیر اخلاقی پروگرامز میں شدت آتی جا رہی ہے۔ یہ کیسا لبرل ازم ہے کہ اسے بھی شدت پسندی کیساتھ نافذ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اسی "عورت مارچ” کے ایک نعرے کو خاصی شہرت ملی، جو "میرا جسم میری مرضی” تھا، اس نعرے کے پس پردہ حقائق یہ ہیں کہ عورت کو مکمل آزادی دیدی جائے، یہ اس کی اپنی مرضی ہے کہ وہ اپنا جسم کس کے سامنے پیش کرتی ہے، جبکہ اسلام نے عورت کو تقدس اور احترام دیا ہے۔ ان لبرلز نے تو عورت کو "شمعِ محفل” بنا دیا ہے۔ اس سے تصویر کائنات میں رنگ کہہ کر اس کی رنگینیاں لوٹنے کیلئے محافل میں سجا دیا ہے، جبکہ اسلام نے ایسے افعال کی مخالفت کی ہے۔ اسلام نے عورت کو بہن، بیوی اور ماں کا درجہ دے کر احترام سے مالا مال کر دیا ہے۔ لبرلز کے اس مارچ کے اثرات اب سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ ایک 15 سالہ لڑکی نے اپنے باپ کو قتل کر دیا ہے۔ پولیس نے تھانے میں جب لڑکی سے پوچھا کہ تم نے اپنے باپ کو گولی کیوں ماری؟ تو اس کا جواب ایسا تھا کہ ہر ذی شعور کانپ جائے۔ لڑکی نے کہا کہ "اس کا باپ اسے اس کے بوائے فرینڈ سے نہیں ملنے دیتا تھا، اس لئے اس نے اپنے باپ کو گولی مار دی۔”

یہ میرا جسم میری مرضی کے سلوگن کا پاکستان میں پہلا نتیجہ ہے۔ اس قتل کا مقدمہ کس کیخلاف درج کیا جائے۔؟ اس معصوم اور بھولی بھالی 15 سال کی سادہ سی لڑکی کیخلاف یا اُسے اِس انتہائی اقدام کیلئے تیار کرنیوالے لبرلز کیخلاف، جنہوں نے اسے یہ سوچ دی کہ تمھارا جسم تمھاری مرضی ہے، اسے والد یا بھائی کی حفاظت میں نہیں رہنا چاہیئے۔ اس قتل پر اب تمام لبرلز خاموش ہیں، گویا سانپ سونگھ گیا ہے، یہ جن کا گھر اجڑا ہے، اس کا درد وہی محسوس کرسکتے ہیں۔ عورت مارچ میں لگائے جانیوالے نعرے نجانے اور کتنے گھروں میں بدامنی کی آگ لگائیں گے، جانے کتنی خواتین کو طلاقیں دلوا کر سڑکوں اور محفلوں کی "جان” بنائیں گے۔ اگر اس بے ہودگی کی لہر کے سامنے بند نہ باندھا گیا تو اس کے ثمرات اور نتائج انتہائی بھیانک نکلیں گے۔ جس کا ہمارا معاشرہ متحمل نہیں ہوسکتا۔

پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے، جس کی بنیاد اسلام کے نظریات پر رکھی گئی ہے۔ اس میں اسلامک ازم کے سوا کوئی ازم کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اسلامک ازم میں ہی اقلیتوں اور غیر مسلموں کو حقوق ملتے ہیں، رواداری اور بھائی چارہ ہے۔ مگر افسوس کہ اسلام کا چہرہ بگاڑ کر پیش کیا گیا اور دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ اسلام ایک شدت پسند مذہب ہے، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ جتنا دامن اسلام کا وسیع ہے، شائد ہی کسی دوسرے مذہب میں اتنی وسعت ہو۔ اس لئے اسلامی اقدار کی پامالی سے بہتر ہے، یہ لبرلز بھی اسلام کے آفاقی اصولوں اور اقدار میں اپنے لئے بھی پناہ ڈھونڈیں، بصورت دیگر ان کیلئے کم از کم پاکستان میں کوئی گنجائش نہیں۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close