بلاگ

امریکی سیاسی ڈھانچے پر اسرائیل کا اثرورسوخ

تحریر: مائیکل جونز (معروف امریکی مصنف اور تجزیہ کار)

حال ہی میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام کی سرحد پر واقع متنازع گولان ہائٹس پر اسرائیلی قبضے کو جائز اور قانونی قرار دے دیا ہے۔ اسی طرح اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ گولان ہائٹس کے بارے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے موقف سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ بنجمن نیتن یاہو کے اس بیان پر مشتمل ویڈیو یوٹیوب پر بھی اپ لوڈ کی گئی ہے۔ اگر آپ اس ویڈیو کے ذیل میں صارفین کی جانب سے سامنے آنے والے تاثرات کا مطالعہ کریں تو جان جائیں گے کہ ان میں سے کوئی بھی کامنٹ اسرائیل کے حق میں نہیں آیا۔ تمام کامنٹس میں اس مشترکہ نکتے پر زور دیا گیا ہے کہ ہمارا ملک اس وقت "اسرائیل کے زیر کنٹرول امریکہ” میں تبدیل ہو چکا ہے یا یہ کہ امریکہ نے خود کو بیچ ڈالا ہے۔ امریکی عوام بے توجہی کا اظہار کر رہے ہیں اور جب وہ ایسا کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اس عمل کے سرے سے مخالف ہیں۔

اس وقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو دونوں اپنے اپنے ملک کی اندرونی سطح پر ایک جیسی صورتحال سے روبرو ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور بنجمن نیتن یاہو کی مثال ایسے دو افراد کی مانند ہے جنہوں نے ڈوبتے ہوئے ایکدوسرے کو تھام رکھا ہو۔ یہاں یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ اس وقت ہی کیوں انجام پایا ہے؟ اس کی حقیقی وجہ یہی ہے کہ دو افراد نے عظیم طوفان کا شکار ہو کر ڈوبتے ہوئے ایکدوسرے کو تھام رکھا ہے۔ اس وقت اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے خلاف کرپشن کے چار بڑے کیس چل رہے ہیں۔ ان کیسز کے نام 1000، 2000، 3000 اور 4000 ہیں۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران ان سے ان کیسز کے حوالے سے تفتیش بھی ہو چکی ہے۔ اسرائیل کے اٹارنی جنرل نے گذشتہ ماہ اس بات کی تصدیق کی ہے کہ عدالت مذکورہ بالا کرپشن کے کیسز میں سے تین میں بنجمن نیتن یاہو پر فرد جرم عائد کرنا چاہتی ہے۔ یہ اعلان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب 9 اپریل کو منعقد ہونے والے آئندہ الیکشن میں صرف 40 دن باقی رہ گئے ہیں۔

اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو پر کرپشن سے متعلق فرد جرم عائد ہونے والی ہے۔ وہ اس ناگوار صورتحال سے نجات پانے کیلئے ایک قسم کی بغاوت کے محتاج ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ بھی امریکہ میں ملتی جلتی صورتحال سے روبرو ہیں۔ ان پر فرد جرم تو عائد نہیں کی جا رہی لیکن جب سے وہ برسراقتدار آئے ہیں ایک "خفیہ طاقت” انہیں اقتدار سے علیحدہ کرنے یا کم از کم رام کر کے اپنی مطلوبہ پالیسیاں اختیار کروانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اس "خفیہ طاقت” کے مطلوبہ اہداف میں سے ایک امریکہ کے سیاسی نظام پر یہودیوں کا قبضہ قائم کروانا ہے۔ حال ہی میں امریکی کانگریس کی ایک مسلمان خاتون رکن ایلہان عمر کی جانب سے امریکہ کے سیاسی فیصلوں پر صہیونی لابیوں کے اثرانداز ہونے سے متعلق بیان سامنے آیا ہے۔ اس بیان کے بعد بڑے پیمان پر ان کے خلاف پروپیگنڈہ مہم چلائی گئی جس کے پیچھے اسی "خفیہ طاقت” کا ہاتھ تھا۔ ایلہان عمر نے یہ بات کرنے میں بہت جرات کا مظاہرہ کیا ہے اور سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کی بات حقیقت پر مبنی ہے۔

بعض تجزیہ کار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے متنازع گولان ہائٹس پر اسرائیلی قبضے کو جائز اور قانونی قرار دیے جانے کو ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو انتخاباتی تحفہ قرار دے رہے ہیں۔ ان کی نظر میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اقدام کا مقصد اسرائیلی عوام میں بنجمن نیتن یاہو کی محبوبیت بڑھانا ہے تاکہ قریب الوقوع الیکشن میں ان کی کامیابی کے امکانات بڑھ جائیں۔ ہو سکتا ہے کوئی اسے امریکہ کی جانب سے اسرائیل کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا نام دے لیکن میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اسرائیل اور امریکہ ہمیشہ سے ایکدوسرے کے انتخابات پر اثرانداز ہوتے آئے ہیں۔ کیا اسرائیل امریکہ میں منعقد ہونے والے انتخابات میں مداخلت نہیں کرتا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل یہ کام کرتا ہے۔ بنجمن نیتن یاہو ٹھیک اس وقت امریکہ کا دورہ کرتے ہیں جب امریکی صدر براک اوباما انہیں امریکہ میں دیکھنا نہیں چاہتے۔ وہ امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری معاہدے کے خلاف بولتے ہیں۔ 25 افراد کھڑے ہو کر ان کے حق میں تالیاں بجاتے ہیں۔ کیا یہ امریکہ کے الیکشن میں مداخلت نہیں ہے؟ امریکہ اور اسرائیل ایکدوسرے کے الیکشن میں مداخلت نہیں کرتے بلکہ انہیں کنٹرول کرتے ہیں۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close