گولان ہائٹس کی اہمیت اور مسلم امہ کی ذمہ داری
تحریر: علی احمدی
اسرائیل اپنی ضرورت کے پانی کا ایک تہائی حصہ گولان ہائٹس سے حاصل کرتا ہے۔ مزید برآں، اس علاقے کی مٹی بہت زرخیز ہے اور ایک سیاحتی مرکز بھی ہے۔ اسی طرح یہ علاقہ غاصب صہیونی رژیم اور اسلامی مزاحمتی بلاک کے درمیان ایک بفر زون بھی سمجھا جاتا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے گولان ہائٹس پر اسرائیلی قبضے کو قانونی اور جائز قرار دیا جانا ایک خودکش حملے سے کم نہیں تھا۔ ٹرمپ کے اس خودکش حملے نے ثابت کر دیا ہے کہ ولی امر مسلمین کا تاریخی جملہ "امریکہ زوال کی جانب گامزن ہے” کس قدر ذہانت پر مبنی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قراردادوں 242، 338 اور 350 کی کھلی خلاف ورزی کا ارتکاب کرنے کے علاوہ عالمی قوانین توڑ کر اپنی گوشہ گیری میں مزید اضافہ کر لیا ہے۔ یہ ایسی قراردادیں ہیں جن پر خود امریکہ کے دستخط بھی موجود ہیں۔ امریکی صدر کے اس اقدام سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اس قدر بیچارہ ہو چکا ہے کہ اب ہر ہتھکنڈہ بروئے کار لانے کا فیصلہ کر چکا ہے۔
اگرچہ امریکہ کی جانب سے اس قسم کے اقدامات اور فیصلے نئے نہیں ہیں اور ٹرمپ حکومت بے سابقہ انداز میں تمام عالمی معاہدوں سے دستبردار ہوتی جا رہی ہے لیکن اس بار ٹرمپ کے اس اقدام کا مقصد بین الاقوامی صہیونی لابی کی حمایت حاصل کر کے خود کو اندرونی سطح پر درپیش مشکلات اور چیلنجز سے باہر نکالنا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار پر باقی رہنے کیلئے ہر قسم کا نامعقول اقدام انجام دینے اور عالمی سطح پر امریکہ کی حیثیت برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ماضی کی امریکی حکومتوں نے بھی ایسے ہی اقدامات انجام دیے ہیں جن کی کچھ مثالیں افغانستان اور عراق پر فوجی قبضہ اور شام اور عراق میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے ذریعے اسلامی مزاحمتی بلاک کے خلاف پراکسی وار کا آغاز ہے۔ اسرائیل میں اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے قدس شریف منتقل کئے جانا، مسئلہ فلسطین سے متعلق صدی کی ڈیل نامی ظالمانہ راہ حل پیش کرنا اور آخرکار گولان ہائٹس پر اسرائیل کے ظالمانہ قبضے کو قانونی اور جائز قرار دینا بھی اسی سلسلے کی مختلف کڑیاں ہیں۔ ان امریکی اقدامات کی بدولت خطے کو درپیش مشکلات اور بحرانوں میں مزید اضافہ ہو گا جبکہ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم سے مقابلے کیلئے اسلامی مزاحمتی بلاک کو مزید پرعزم بنا دیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ گولان ہائٹس شام کی سرزمین کا اٹوٹ انگ ہے اور اس کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا حصہ ہے۔ اس بارے میں عالمی برادری میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ گولان ہائٹس شام کا علاقہ ہے لیکن اس کے باوجود گذشتہ کئی عشروں سے اسرائیل کے ناجائز قبضے میں ہے۔ اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ اقدام کے خلاف کوئی موثر اقدام انجام نہیں پایا اور صرف چند مذمتی بیانات پر ہی اکتفا کیا گیا تو امریکہ میں مزید گستاخانہ اقدامات انجام دینے کی جرات پیدا ہو جائے گی۔ اس کے بعد امریکہ کا اگلا قدم مغربی کنارے پر اسرائیلی قبضے کو قانونی حیثیت عطا کرنے کی صورت میں ظاہر ہو سکتا ہے جبکہ اسرائیل نے صحرائے سینا پر بھی نظریں جما رکھی ہیں۔ گولان ہائٹس اسرائیل کیلئے بہت زیادہ اہمیت کا حامل علاقہ ہے کیونکہ مذکورہ بالا فوائد کے علاوہ وہاں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر بھی موجود ہیں اور اگر اس علاقے پر اسرائیل کا قبضہ تسلیم کر لیا جاتا ہے تو اس سے عرب ممالک کو شدید اقتصادی جھٹکا لگنے کا خطرہ ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس حالیہ اقدام نے ثابت کر دیا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے اسلام مخالف اقدامات کا مقابلہ محض سفارتی سرگرمیوں کے ذریعے ممکن نہیں بلکہ امت مسلمہ کو خواب غفلت سے بیدار ہو کر امریکہ اور اسرائیل کے خلاف بھرپور مزاحمتی مہم کا آغاز کر دینا چاہئے۔ عرب حکمرانوں کو جان لینا چاہئے کہ امریکہ اور اسرائیل سے مذاکرات کا راستہ بے سود اور لاحاصل ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کسی عہد کے پابند نہیں اور ان سے صرف طاقت کی زبان میں ہی بات کی جا سکتی ہے۔ اگر عرب حکومتیں اسلامی مزاحمتی تنظیموں اور گروہوں کا ساتھ دیے بغیر امریکہ اور اسرائیل سے "امن مذاکرات” جاری رکھتے ہیں تو اس کا نتیجہ صرف اور صرف انہیں مزید ظالمانہ اقدامات انجام دینے کیلئے جرات فراہم کرنے کی صورت میں ہی ظاہر ہو گا۔ مسلم حکمران اس حقیقت سے اچھی طرح آگاہ ہو جائیں کہ اسلام دشمن قوتوں کا مقابلہ کرنے کیلئے اس کے گستاخانہ اقدامات کا موثر انداز میں جواب دینا ضروری ہے۔