بلاگ

افریقی ممالک میں اسرائیل کی بڑھتی سرگرمیاں اور پس پردہ اہداف

تحریر: فاطمہ صالحی

اسرائیلی حکام کی جانب سے خاص طور پر وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے برسراقتدار آنے کے بعد براعظم افریقہ کے غریب اور پسماندہ ممالک میں سرگرمیاں بہت بڑھ گئی ہیں جس نے رائے عامہ کے ذہن میں بہت سے سوالات جنم دیے ہیں۔ ایک طرف افریقی ممالک کی غربت اور شدید مالی ضروریات جبکہ دوسری طرف اسرائیل کے سیاسی، فوجی، اقتصادی اور میڈیا اہداف کی بدولت ان سرگرمیوں میں تیزی پیدا ہوئی ہے۔ 2016ء میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے یوگنڈا، کینیا، روانڈا، اتھوپیا کا دورہ کیا۔ اسی طرح نیتن یاہو نے جون 2017ء میں لائبیریا اور نومبر 2018ء میں کینیا کا دورہ کیا۔ دوسری طرف اسرائیلی پارلیمنٹ بھی روانڈا، یوگنڈا، گھانا، کیمرون، تنزانیا اور جنوبی سوڈان کے حکام کی میزبانی کر چکی ہے۔ البتہ اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے میں یہ افریقی ممالک عرب ممالک کے پیرو ہیں اور جب وہ دیکھتے ہیں کہ عرب حکمران کھلم کھلا اسرائیل سے تعلقات پروان چڑھا رہے ہیں تو خود بھی اسرائیل کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے لگتے ہیں۔

جب سے اسرائیل کے نظریاتی بانی تھیوڈور ہرٹسل نے ایک صہیونی کانفرنس میں نیل سے فرات تک "اسرائیل کی وسیع ریاست” کا نظریہ پیش کیا تب سے صہیونی رہنما افریقی ممالک کو ایک سکیورٹی پس منظر کے طور پر دیکھتے ہیں۔ انہوں نے پہلے مرحلے پر افریقی ممالک سے اپنے تعلقات استوار کرنے کا آغاز مصر سے کیا، اس کے بعد اردن اور پھر دیگر افریقی ممالک کا رخ کیا۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے حال ہی میں چاڈ کا دورہ کیا جسے خود انہوں نے ہی تاریخی دورہ قرار دیا۔ اس دورے میں اسرائیل اور مسلمان نشین افریقی ملک چاڈ کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کا زمینہ فراہم کیا گیا۔ بنجمن نیتن یاہو نے مڈٹرم الیکشن کیلئے جاری مہم چھوڑ کر اپنے وقت کے 23 گھنٹے چاڈ کے دورے سے مخصوص کئے۔ صرف ان کی فلائٹ ہی 16 گھنٹے کی تھی۔ اسی طرح چاڈ کے صدر ادریس دبی نے بھی نومبر 2018ء میں اسرائیل کا دورہ کیا تھا۔ شاید یہ کہا جا سکتا ہے کہ افریقی ممالک کی جانب سے اسرائیل سے قربتیں بڑھانے کی ایک وجہ ان ممالک میں پائی جانے والی شدید غربت ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل کی جانب سے افریقی ممالک سے قربت بڑھانے کی وجہ ان کی مدد کرنا یا ان ممالک سے غربت کا خاتمہ کرنا نہیں ہے بلکہ ان ممالک سے اسلحہ فروخت کرنے کے معاہدے کرنا ہے۔

مثال کے طور پر چاڈ اپنے شمالی علاقہ جات میں باغیوں سے مقابلے کیلئے اسرائیل سے اسلحہ خرید چکا ہے۔ اسرائیل ان افریقی ممالک کو ہمیشہ کیلئے اپنے اسلحہ کا خریدار باقی رکھنے کیلئے پس پردہ دہشت گرد گروہوں کی بھی مالی اور فوجی مدد کر رہا ہے۔ ڈارفور کے باغیوں کو اسرائیل کی جانب سے اسلحہ فراہم کرنے کی خبر تو کئی بار منظرعام پر بھی آ چکی ہے۔ اسرائیلی حکام افریقی ممالک سے قربتیں بڑھا کر پروپیگنڈہ مہم بھی چلا رہے ہیں۔ وہ دنیا والوں اور عالمی رائے عامہ کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ افریقی مسلمانوں سے ان کے اچھے تعلقات ہیں لہذا اگر اب تک فلسطینیوں سے ان کے امن مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکے تو اس میں خود فلسطینی قصوروار ہیں۔ البتہ اسرائیل افریقی ممالک سے تعلقات کو اقوام متحدہ میں بھی اپنے حق میں استعمال کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ میں آئے دن مسئلہ فلسطین سے متعلق سامنے آنے والے تنازعات کے بارے میں ووٹنگ ہوتی رہتی ہے لہذا اسرائیل ان افریقی ممالک کے ووٹ کو اپنے حق میں استعمال کرنا چاہتا ہے۔ مصر کے نائب وزیر خارجہ سعاد شلبی نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ اسرائیل براعظم افریقہ کو توڑنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔

اسرائیل دریائے نیل کے نواحی ممالک پر اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہے۔ اس کا مقصد اس اہم دریا پر کنٹرول حاصل کر کے اس کے فوائد حاصل کرنا ہے۔ اسرائیل نے سب سے پہلے جس افریقی ملک سے تعلقات بڑھانے کی کوشش کی وہ اتھوپیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ملک میں دریائے نیل پر النھضہ ڈیم تعمیر کیا جا رہا ہے اور اس کے مصر سے اختلافات بھی ہیں۔ اسرائیل کے صدر نے اپنا عہدہ سنبھالتے ہی 2014ء کے وسط میں اتھوپیا کا دورہ کیا تھا۔ اسی طرح اسرائیل نے اریتھرے کی بندرگاہ "مصوع” پر ایک فوجی اڈہ بھی قائم کر رکھا ہے جو بحیرہ احمر پر محیط ہے۔ اسرائیل نے یہ اڈہ ایک ارب ڈالر کی قرارداد کے نتیجے میں قائم کیا ہے۔ اگرچہ افریقی ممالک شدید غربت کا شکار ہیں اور اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم ان کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے براعظم افریقہ میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے میں مصروف ہے لیکن عرب ممالک اپنے پاس موجود نامحدود دولت کے ذریعے افریقی ممالک کی اس ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں اور اس طرح اسرائیل کا راستہ روک سکتے ہیں لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ عرب ممالک کیلئے افریقی ممالک سے اسرائیل کے بڑھتے ہوئے تعلقات کوئی مسئلہ نہیں ہیں اور وہ اسے اپنے لئے خطرہ تصور نہیں کرتے۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close