گولان ہائٹس اور مشرق وسطی میں پانی کی جنگ
تحریر: فوزی عبدالحلیم
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مقبوضہ سرزمین گولان ہائٹس پر اسرائیلی قبضے کو قانونی حیثیت دینے کے بعد مشرق وسطی پانی کی جنگ کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔ یاد رہے اسرائیل نے 1991ء میں اس بارے میں ایک خاص قانون منظور کیا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اسرائیل بارہا اس بات پر تاکید کر چکا ہے کہ وہ ہر گز گولان ہائٹس پر سے اپنا قبضہ ختم نہیں کرے گا کیونکہ یہ علاقہ اسرائیل کو پانی مہیا کرنے کے اہم ذخائر پر مشتمل ہے۔ اسرائیل گولان ہائٹس کے علاوہ اردن، لبنان اور مقبوضہ فلسطین کے زیر زمین پانی کے ذخائر پر بھی قبضہ کئے ہوئے ہے۔ اسرائیل پانی کے انہی ذخائر کی مدد سے اپنی زراعت برقرار رکھے ہوئے ہے اور بڑی مقدار میں پھل پیدا کرتا ہے۔ اسرائیل کی زراعت کا چالیس فیصد حصہ پانی کے ان ذخائر پر منحصر ہے۔ اسرائیل کی زرعی مصنوعات میں مختلف قسم کے پھل اور زیتون شامل ہیں۔
ایکو سسٹم یا ماحولیات کی جنگ، مختلف قسم کی جنگوں میں سے ایک انتہائی خطرناک قسم کی جنگ ہے۔ اس جنگ میں صرف محاذ جنگ پر موجود مسلح افواج کو ہی خطرہ درپیش نہیں ہوتا بلکہ اس کے مضر اثرات آئندہ کئی نسلوں تک جاری رہتے ہیں۔ اس جنگ کے نتیجے میں مستقبل کی نسلیں موت اور غربت جیسے شدید نقصانات کا شکار ہوتی ہیں۔ ماحولیات کی جنگ میں قدرتی ذخائر پر قبضہ، قدرتی ذخائر پر مبنی سرزمین پر قبضہ اور قدرتی ذخائر کو آلودہ کرنا شامل ہے۔ تاریخ میں سرزمین چوری کرنے کی سب سے بڑی مثال اسرائیل نے قائم کی ہے۔ اسرائیل اپنے ہمسایہ عرب ممالک کے ایکو سسٹمز کے خلاف دشمنی کرنے میں گھٹیا سے گھٹیا ہتھکنڈے استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ دوسری طرف عرب ممالک کی کمزوری، اپنے اندرونی مشکلات میں مشغولیت اور اندرونی سطح پر قومی اور لسانی اختلافات اور فتنہ انگیزی اور بیرونی قوتوں کی مداخلت کے سبب اسرائیل کو ان کے خلاف اپنے ہتھکنڈے استعمال کرنے کا کھلا موقع میسر آ چکا ہے۔ ان حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل نے ان کی سرزمین اور قدرتی ذخائر کی لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔
اس وقت دریائے نیل، دجلہ، فرات، اردن، لیطانی اور فلسطین میں جوفیہ کے پانی کے ذخائر اسرائیل کی دراندازی کا شکار بنے ہوئے ہیں۔ پانی کے یہ تمام ذخائر ایسے ہیں جن پر عرب ممالک کی زراعت اور پانی کی دیگر ضروریات کا دارومدار ہے۔ ان پانی کے ذخائر پر اسرائیل کی روز بروز بڑھتی ہوئی دراندازی کے باعث عرب ممالک کو پہنچنے والے پانی میں کمی آ رہی ہے اور عرب علاقوں میں پانی کی کمی کی شدت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دوسری طرف اس پانی کی مدیریت کا فقدان بھی مشکلات میں اضافے کا سبب بن چکا ہے۔ اسی طرح قحط اور پانی کی قلت، صحرائی علاقوں میں اضافہ، نمکین اور کڑوا ہوتا ہوا پانی، ہوا کی آلودگی میں اضافہ اور موسمیاتی تبدیلیوں نے بھی مشرق وسطی خطے کو پانی کے بحران سے روبرو کر دیا ہے۔ کاش عرب حکومتیں بیدار ہو جاتیں اور درپیش خطرات کی شدت کو جان جاتیں اور ان کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک واحد محاذ تشکیل دے دیتیں۔ عرب ممالک کو چاہئے کہ وہ آپس کی لڑائیوں کو چھوڑ کر اپنے قدرتی ذخائر کی حفاظت کیلئے اسرائیل کے خلاف متحد ہو جائیں اور اپنی آئندہ نسلوں کے سرمائے کا تحفظ یقینی بنائیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ گولان ہائٹس پر قبضہ اسرائیل کی جاہ طلبی اور ہوس کو پورا کرنے کیلئے کافی ثابت نہیں ہو گا اور اگر اس کے خلاف موثر اقدامات انجام نہ دیے گئے تو وہ دیگر عرب سرزمینوں کو بھی اپنی جارحیت کا نشانہ بنائے گا اور مزید قدرتی ذخائر پر قبضہ کر لے گا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گولان ہائٹس پر اسرائیلی قبضے کو جائز قرار دیتے وقت یہ دلیل پیش کی ہے کہ "اسرائیل کو اس علاقے کی ضرورت ہے۔” اس دلیل کے بے بنیاد ہونے میں ذرہ برابر شک اور ابہام نہیں پایا جاتا۔ ضرورت کو بنیاد قرار دے کر کس طرح ایک جارح قوت کا دوسرے ملک کی سرزمین پر قبضہ جائز اور قانونی قرار دیا جا سکتا ہے؟ دوسری دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ گولان ہائٹس کا علاقہ انتہائی زرخیز زمین پر مشتمل ہے جہاں بہت زیادہ نہریں پائی جاتی ہیں اور قدرتی ذخائر سے مالامال ہونے کے علاوہ یہ علاقہ سیاحت کا مرکز بھی ہے۔ اگر اسرائیل اور امریکہ آج ان بے بنیاد دلائل کو پیش کر کے عرب سرزمینوں کو ہتھیانے کی جرات کر رہے ہیں تو یہ خود عرب حکمرانوں کی کمزوری اور بزدلی کا نتیجہ ہے۔