’ایک دن ماں ضرور گھر آئے گی‘
ننکانہ صاحب کی طرف جانے والی مرکزی سڑک سے چند ہی کلومیٹر کے فاصلے پر اٹاں والی کے نام سے ایک گاوں ہے ۔ یہیں فالسوں کے ایک باغ میں تقریباً سات برس پہلے مسیحی خاتون آسیہ بی بی کا جھگڑا ہوا تھا۔ ان عورتوں سے جن کے ساتھ وہ باغ میں فالسے توڑتی تھیں۔
آسیہ بی بی پاکستان کے ان درجنوں قیدیوں میں سے ایک ہیں جنہیں توہین مذہب کے نام پر موت کی سزا ہوچکی ہے۔آسیہ نے اس سزا کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں اپیل کی تھی جس کے مسترد ہونے کے بعد اب آسیہ کے شوہر نے سپریم کورٹ کا دروازہ کٹھکٹھایا ہے۔
الزام لگنےکے چند روزبعد آسیہ کو اٹاں والی میں ان کے گھر سے لوگوں کے ایک ہجوم نے پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا۔ جس کے بعد وہ پہلے شیخوپورہ اور پھر ملتان جیل میں قید رہیں۔
توہین مذہب کا الزام تو آسیہ پر لگا تھا تاہم ان کے خاندان کے لیے بھی زمین تنگ ہوگئی۔ پہلے انھوں نے گاوں میں اپنا گھر بیچا اور پھر کبھی ایک در تو کبھی دوسرے۔ جان کا خطرہ ہے کہ سکون سے جینے نہیں دیتا۔
آسیہ بی بی کے پانچ بچوں میں سے جدائی کا سب سے زیادہ اثر چھوٹی دو بیٹیوں ایشا اور ایشم نے لیا۔ ایشا تو ذہنی طور پر نارمل نہیں۔ ماں کے ساتھ کیا ہوا اس کی سمجھ تو نہیں رکھتیں تاہم ماں ان کے پاس نہیں اس چیز کا احساس انھیں ہمیشہ ہی پریشان رکھتا ہے۔
لیکن ایشم نے گذشتہ سات برسوں میں خوب ہوش سنھبالا ہے۔ وہ کہتی ہیں میں اس دن کو کبھی نہیں بھول سکتی جب ماں کی لڑائی ہوئی۔
ایشم اس وقت آسیہ کے ساتھ ہی تھیں۔ ’ماں نے پانی مانگا تو انھوں نے پانی نہیں دیا۔ تھوڑی دیر میں ماں کے ساتھ مار پیٹ شروع کردی اور میں نے پانی مانگا تو انھوں نے مجھے بھی مارا۔‘
ایشم کہتی ہیں کہ پھر لوگ ہمارے گھر آئے اور ہماری ماں کو لے گئے۔ سب کچھ ہمارے سامنے ہوا لیکن ہم کچھ نہیں کرپائے۔ یہ کہتے کہتے ریشم کی کاجل سے بھری آنکھیں چمکنے لگیں اور پھر خود پر قابو پانے کی کوشیش کے باوجود آنکھ میں پانی اتنا زیادہ ہوا کہ دو آنسو چھلک کر ان کی گالوں پر پھسل گئے۔
"زندگی ماں کے بغیر ادھوری ادھوری لگتی ہے۔ جب ہم کچھ دنوں کے لیے ایک جگہ پر جاکر ٹھہرتے ہیں تو ہمیں ایسا لگتا ہے کہ پتا نہیں ہم پھر اس جگہ کو دوبارہ دیکھ پائیں گے یا نہیں۔ مجھے ہروقت سکول بدلنا بھی بہت برا لگتا ہے”۔
ایشم کو روتا دیکھ کر آسیہ کے شوہر عاشق مسیح کے چہرے پر کرب نمایاں ہونے لگا۔
عاشق نے بتایا ’جب سے آسیہ جیل میں ہے بچے اسے بہت یاد کرتے ہیں۔ ہم نے اس کے جیل میں جانے کے بعد مشکلات بہت دیکھیں ہیں۔ کئی دن ایسے آئے کہ بچوں کو دو دو تین دن کچھ کھانے کو نہیں ملا۔ میں مزدوری جو نہیں کرپارہا تھا۔‘
عاشق کو آسیہ کے ساتھ اپنےبچوں کی زندگی کی فکر بھی ستاتی رہیتی ہے۔ ’میں سوچتا رہتا ہوں کہ ابھی کچھ نہ ہوجائے اور کچھ بھی ہو تو سکتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک میاں بیوی کو بھٹے میں جلادیا تھا۔ یہی ڈر رہتا ہے کہ بچوں کو کوئی نقصان نہ ہوجائے مجھے کوئی نقصان نہ ہوجائے اور اگر مجھے کچھ ہوگیا تو بچوں کا والی وارث کون ہوگا۔‘
آسیہ کے ساتھ جیل میں ملاقات خاندان کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ ایشم تو ماں کو گلے لگانا چاہتی ہے۔ روز سے۔ لیکن بیچ میں جیل کی سلاخیں آجاتی ہیں۔
عاشق مسیح نے آسیہ سے اپنی حالیہ ملاقات کی تفصیلات بتائیں ’آسیہ بچوں کا پوچھ کر بہت رو رہی تھی۔ ان کی پڑھائی کی فکر بھی کررہی تھی۔ کہہ رہی تھی بچوں کا خیال رکھنا۔ میرا کوئی پتہ نہیں میں جیوں یا مروں۔‘
لیکن ایشم کو لگتا ہے کہ ماں گھر واپس ضرور آئے گی۔
’ڈر تو بہت لگتا ہے کہ پتہ نہیں آنے والے وقت میں کیا ہوگا۔ لیکن ہمیں خدا سے بہت امید ہے۔ وہ میری ماں کو جلد سے جلد رہا کرے گا اور ہمارے پاس واپس لائے گا تا کہ جو خوشی چلی گئی تھی وہ پھر واپس آسکے۔‘
لیکن عاشق مسیح کہتے ہیں کہ اگر آسیہ آزاد ہو بھی گئیں تو پاکستان میں رہنا مشکل ہوگا۔ ’پہلے جیل میں بھی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ کسی نے اس کے سر کی قیمت پانچ لاکھ تو کسی نے دس لاکھ رکھی ہوئی ہے۔ کہ اس قتل کرکے پیسے لے لو۔ ایسی صورت میں یہاں رہنا تو خطرے سے خالی نہیں۔‘