ایک پپی اِدھر ، ایک پپی اُدھر
اگر منی لانڈرنگ سے بریت کا یہی فیصلہ دو ماہ پہلے آجاتا تو کراچی کے نائن زیرو سے لگا جناح گراؤنڈ آج کچھا کھچ بھرا ہوتا، صدقے کے بکرے کٹ رہے ہوتے، دیگیں چڑھی ہوتیں، ڈھولک پٹ رہے ہوتے اور فاروق ستار کہہ رہے ہوتے ’دیکھا دیکھا دیکھا ۔۔۔پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا۔‘
مگر برا ہو بائیس اگست کی الطاف بھائی کی ’مردہ باد فیم‘ تقریر کا کہ کراچی میں آج اگر منی لانڈرنگ کیس کی بے گناہی ثابت ہونے پر کوئی جشن منا بھی رہا ہوگا تو کچھ گھروں کی چار دیواری میں۔ بیشتر پارٹی دفتر تو پہلے ہی رینجرز کے ہاتھوں ٹوٹ چکے ۔
ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ کراچی کی کئی دیواریں چیختی تھیں ’ہمیں منزل نہیں رہنما چاہئیے۔‘ عمران فاروق قتل کے بعد کی تفتیش اور پھر ایم کیو ایم لندن سیکرٹریٹ اور بھائی کے گھر سے پانچ لاکھ پاؤنڈ سٹرلنگ برآمد ہونے کے بعد لوگوں کو لگا کہ سکاٹ لینڈ یارڈ نے بھی نعرہ لگا دیا ہے ’ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے۔‘
یہی لندن سیکرٹریٹ جو آج آبِ مسرت سے نہا رہا ہے اور برطانوی نظامِ انصاف کے گن گا رہا ہے کہ ’بھئین یہ پاکستان نہیں برطانوی عدالت ہے۔ کیا سمجھے برطانویی۔‘ یہی لندن سیکرٹریٹ قائدِ تحریک اور ان کے ساتھیوں کے گرد چار برس پہلے تفتیشی گھیرا تنگ ہونے پر کہہ رہا تھا کہ برطانوی اسٹیبلشمنٹ میں کچھ لوگ ایم کیو ایم کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔
البتہ پاکستانی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی اور الطاف بھائی کے منہ بولے منسوخ بیٹے سابق مئیر کراچی مصطفی کمال سمیت کئی لوگ مایوس نہیں۔انھیں اب بھی ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کے کسی ممکنہ فیصلے سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔
الطاف حسین کے کٹر حامیوں اور سرفروشوں کو چھوڑ کے بہت سے عام لوگوں کو اس بات سے کوئی خاص دلچسپی نہیں کہ منی لانڈرنگ کیس کا خاتمہ کس کی فتح اور کس کی شکست ہے۔ وہ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ بائیس اگست کی مردہ باد فیم تقریر کے ذریعے الطاف بھائی نے اپنی ہی سیاسی وکٹ پر جو بلا کھینچ مارا اور اسٹیبلشمنٹ کو کیچ بھی پکڑا دیا۔ اس کے بعد کے بحران سے وہ کم ازکم پاکستان کی حد تک کیسے نکلتے ہیں۔ نیز ان کے دو ساتھیوں ( محمد انور اور طارق میر ) نے سکاٹ لینڈ یارڈ کے روبرو بھارت سے فنڈنگ لینے کا جو اعتراف کیا اور پھر یہ بیان سکاٹ لینڈ یارڈ کی سمری سے لیک ہوا۔اس کی کیا تاویل سامنے آئے گی۔
ان تمام مسائل کے ہوتے اور اصلی باتصویر ایم کیو ایم کے چار حصوں میں بٹنے کے باوجود ابھی یہ ثابت ہونا باقی ہے کہ ایم کیو ایم کا ووٹ بینک کتنا جڑا ہوا ہے یا کتنا منتشر ہوا ہے۔ ایم کیو ایم لندن نے تو فاروق ستار دھڑے اور ان کے حامی ارکانِ اسمبلی کو کھلا چیلنج دے رکھا ہے کہ دم ہے تو استعفی دے کر دوبارہ جیت کے دکھاؤ۔ اس لٹمس ٹیسٹ سے ایم کیو ایم پاکستان کو کبھی نہ کبھی تو گذرنا ہی ہوگا۔
کراچی میں بظاہر سب اچھا کے باوجود ایم کیو ایم کے تعلق سے حالات کی بے یقینی برقرار ہے۔ منی لانڈرنگ کیس سے بریت کے بعد ایم کیو ایم لندن میں یقیناً ولولہ پیدا ہوا ہے اور اگلے چند دن میں پاکستان کے لیے نئی رابطہ کمیٹی کا بھی اعلان ہونے والا ہے۔ اس کے بعد اندازہ ہو سکے گا کہ جس ریموٹ کنٹرول سے پچھلے چوبیس برس سے کراچی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس ریموٹ کی بیٹری میں ابھی کتنا دم باقی ہے ۔
تب تک الطاف بھائی اپنے پچھلے وڈیو میں ذرا سی ایڈیٹنگ کر کے جھومتے ہوئے کہہ سکتے ہیں ’سکاٹ لینڈ یارڈ الطاف بھائی سے محبت کرتا ہے ۔ الطاف بھائی بھی سکاٹ لینڈ یارڈ سے محبت کرتے ہیں۔ پیارے سکاٹ لینڈ یارڈ کے گالوں پر ایک پپی اِدھر ، ایک پپی اُدھر۔