بشار الاسد کی بیوی کا کہنا ہے کہ انھوں نے پناہ کی پیشکش مسترد کی
ان کا کہنا ہے کہ وہ مانتی ہیں کہ انھیں یہ پیشکش کرنے والے ان کے شوہر اور ان کی صدارت کو کمزور کرنا چاہیے تھے۔
روسی سرکاری ٹی وی چینل پر انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے یہ بات طاہر کرنے سے انکار کیا کہ انھیں یہ پیشکش کس نے کی تھی۔
اسما الاسد نے روس کی حکومت کی جانب سے بشار الاسد کی صدارت کی حمایت کرنے کے لیے شکریہ ادا کیا۔
اسما الاسد کے سوشل میڈیا صفحات پر ان کی بہت کی تصاویر میں انھیں زخمی بچوں کا خیال کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’میں شروع سے یہاں ہوں اور میں نے کھبی کہیں اور ہونے کی خواہش نہیں کی۔‘
’مجھے شام چھوڑنے کی یا پھر یوں کہیں شام سے بھاگنے کی پیشکش کی گئی تھی۔ اس پیشکش میں میرے اور میرے بچوں کے لیے حفاظت اور مالی اطمیان کی ضمانت بھی تھی۔‘
’یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ یہ پیشکش کرنے والے لوگ حقیقتاً کیا چاہتے تھے۔ یہ صدر بشار الاسد میں لوگوں کے اعتماد کو کم کرنے کی کوشش تھی۔‘
اسما الاسد لندن میں پیدا ہوئی اور 2000 میں ان کی شادی بشار الاسد سے ہوئی۔ اس سے پہلے وہ ایک انویسٹمنٹ بینکر تھیں۔
شام میں صدر بشارالاسد کے اقتدار کے خلاف بغاوت کے بعد سے شروع ہونے والی جنگ شام کے کئی حصوں میں پھیل چکی ہے۔ اس جنگ کو پانچ سال سے زائد کا عرصہ ہو گیا ہے اور اس میں کم از کم تین لاکھ افراد جانیں گنوا چکے ہیں۔
ادھر امریکہ اور روس کی جانب سے شام میں ایک اور جنگ بندی کروانے کے سلسلے میں سوئٹزر لینڈ میں مذاکرات شروع ہو رہے ہیں۔
امریکہ کے سیکریٹری خارجہ جان کیری اور ان کے روسی ہم منصب سرگے لاوروف سنیچر کو ترکی، سعودی عرب، ایران اور قطر کے مندوبین سے ملاقات کریں گے۔
ستمبر میں ہونے والی مختصر جنگ بندی کے بعد شام اور اس کا اتحادی روس مشرقی حلب میں باغیوں کے زیرِ قبضے علاقوں میں بمباری کر رہا ہے۔
بڑی امدادی اداروں نے ان علاقوں میں امداد پہنچانے کے لیے کم سے کم 72 گھنٹے کی جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔
لیکن حکام کا کہنا ہے کہ ان مذاکرات میں کسی بڑی پیش رفت کی امید کم ہے۔