ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کامیاب یا ناکام؟
تحریر: ایم کے عباسی
اس حکومت حکومت ٹیکس نادہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے ایک نئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم لانے کا پر غورکر رہی ہے لیکن اگر ہم ماضی میں متعارف کروائی گئی اسکیموں پر نظر ڈالیں تو ان اسکیموں کے اجراء کے وقت ہمیشہ یہی کہا جاتا ہے کہ ان کا مقصد ٹیکس نا دہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہے لیکن اس کے برعکس ان اسکیموں سے ٹیکس چوروں اور لٹیروں کو فائدہ اور ایمانداری سے ٹیکس دینے والوں پر بوجھ میں اضافہ ہی ہوا۔
ٹیکس چوروں کی معاونت کے لیے پہلی ایمنسٹی یا عام معافی اسکیم 1958 میں متعارف کرائی گئی۔ جس کے بعد سے اب تک متعدد اسکیمیں لا کر ٹیکس چوروں کو سہولت فراہم کی گئی۔
مزے کی بات یہ ہے کہ ہر ٹیکس معافی اسکیم کو ٹیکس چوروں کے لیے "آخری” موقع قرار دیا گیا لیکن ایسا ہو نہیں سکا۔ اس کا ثبوت اب تک لائی گئی اسکیموں کے نتیجے میں جمع ہونے والی رقم اور اس سے فائدہ اٹھانے والوں کے بارے میں معلومات کا چھپاناہے۔ مثال کے طور پر 1985، 1991، 1998 اور 2012 کی "ٹیکس عام معافی اسکیموں” کا ریکارڈ دستیاب نہیں۔
1958 میں صدر ایوب خان کے دور حکومت کی پہلی ” ٹیکس عام معافی اسکیم ” سے تقریباً 71 ہزار افراد نے فائدہ اٹھا ۔ اس طرح ٹیکس دینے والوں کی تعداد 2 لاکھ 66 ہزار سے زائدہوگئی ۔ اسکیم سے ایک ارب 12 کروڑ روپے ٹیکس حاصل ہوا ۔ تاہم اس عام معافی اسکیم کے باوجو د 1958 – 1959 کے دوران ٹیکس کی شرح "جی ڈی پی” کے 10 فیصد سے بھی کم ہی رہی۔ اسی طرح 1997 کی اسکیم سے صرف 14 کروڑ 10 لاکھ روپے ٹیکس جمع ہوا ۔
2000میں جنرل مشرف کے دور کی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس "ٹیکس معافی اسکیم” کا فائدہ وزیر اعظم عمران خان نے بھی اٹھایا اور 1983 میں خریدا گیا اپنا لندن کا فلیٹ ظاہر کیا ۔ خان صاحب کے علاوہ 79 ہزار دیگر نے بھی اسکیم سے فائدہ اٹھا کر اپنے اثاثے ظاہر کیے ۔ اس اسکیم سے حکومتی خزانے میں 10 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے معیشت پر دباؤ کم ہوگا: مودیز
2013 میں ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی بھر پور مخالفت کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے اسے دولت مندوں کو فائدہ پہنچانے کا حربہ قرار دیا تھا ۔ لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ ” ٹیکس فری دولت مند اشرافیہ” اتنی طاقتور ہے کہ کپتان کو ہی حکومت کے ابتدائی دور میں ” ٹیکس عام معافی اسکیم” متعارف کرانے کی منصوبہ بندی کر نا ہو گی۔
میاں نواز شریف حکومت نے 2013 میں ” ٹیکس ایمنسٹی اسکیم” کا اعلان کیا تھا۔ 1997 کی اسکیم کی طرح اس ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کو بھی اندرون ملک اثاثوں تک محدود رکھا گیا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس اسکیم کا مقصد غیر قانونی طریقے سے درآمد کی گئی گاڑیوں کے مالکان کو خوش کرنا اور ان کی قیمتی کاروں کو قانونی شکل دینا تھا۔ اسکیم کے اعلان پر دعویٰ کیا گیا کہ بڑی گاڑیوں کی غیر قانونی درآمد کو قانونی شکل دینے کی "عام معافی اسکیم ” سے قومی خزانے میں 35 ارب روپے کا اضافہ ہو جائے گا۔ لیکن "کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا ” کے مثل اس رقم کا ایک فیصد بھی با مشکل حاصل ہو سکا۔
2016کی "ٹیکس عام معافی اسکیم ” بھی 2013 اسکیم سے ملتی جلتی تھی ۔ اس اسکیم کو چھوٹے کاروبار کرنے والوں تک محدود رکھا گیا۔ اس اسکیم سے فائدہ اٹھانے والوں کے گزشتہ ٹیکس چوری کے جرائم پر معافی کا اعلان کیا گیا بشرط یہ کہ اگر وہ اپنے تمام اثاثے اور کاروبار ظاہر کر کے ٹیکس دینے والوں میں شامل ہو جائیں۔ لیکن چھوٹے کاروباری ٹیکس نیٹ میں آنےپر تیار نہیں ہوئے اور صرف 10 ہزار چھوٹی صنعتوں کے مالکان نے اسکیم سے فائدہ اٹھایا اور 85 کروڑ روپے ٹیکس جمع ہو سکا۔
اگر زیادہ ٹیکس جمع ہونے کے لحاظ سے دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن دور حکومت کی آخری "ٹیکس عام معافی اسکیم 2018 ” سب سے کامیاب ثابت ہوئی ۔ گو کہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ اس اسکیم سے 10 ارب ڈالر ٹیکس حاصل کر لیا جائے گا تاہم ایک ارب ڈالر کے مساوی جمع ہونا بھی کچھ کم نہیں تھا۔ یہ ایک خصوصی اسکیم تھی جس میں اندورن ملک اثاثوں کے ساتھ بیرون ملک اثاثے ظاہر کرنے والوں کو بھی شامل کیا گیا۔ اس سے پہلے مشرف دور میں ایک ایسی ہی اسکیم دی گئی تھی جس میں عمران خان نے اپنا لندن کا فلیٹ ظاہر کیا تھا۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ 2018 کی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھا کر بڑی تعداد میں لوگوں نے اندورن اور بیرون ملک اثاثے ظاہر کیے۔ایک محتاط اندازے کے اسکیم سے حکومتی خزانے میں 120 ارب روپے جمع ہوئے۔ تاہم معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس اسکیم کی کامیابی میں بڑا کردار عالمی سطح پر شروع کی جانے والی "کالے دھن” کے خلاف مہم بھی تھی ۔ جس میں دنیا کے بیشتر ممالک اپنے ملک میں غیرملکیوں کے اثاثوں کی معلومات کے تبادلے پر تیار ہو گئے تھے۔ ستمبر 2018 سے پاکستان بھی عالمی تنظیم برائے اقتصادی تعاون اور ترقی کے رکن ممالک میں شامل ہے ۔ اس تنظیم کے تحت رکن ممالک پاکستان کو ان کے شہریوں کے بیرون ملک اثاثوں اور کھاتوں کی معلومات فراہم کرنے کے پابند ہوں گے۔ اس سہولت سے وفاقی محصولات کے ذمہ دار ادارے ” ایف بی آر” کی طاقت میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے۔
اس کے علاوہ، 1992 کے اقتصادی اصلاحات کے تحفظ میں ترمیم کو بھی غیر ملکی کرنسی کی نقل و حرکت کو منظم کرنے کے لئے اور 2001 کے انکم ٹیکس آرڈیننس کے مطابق لانے کے لیے ترامیم بھی کی گئیں۔ ان ترمیموں کے ذریعے، ایف بی آر پر لاگو قدغن بھی ختم کر دی گئی ۔ اب غیر ملکی زرمبادلہ اور غیر ملکی اثاثوں اور آمدنی کی تحقیقات پر عائد پانچ سال کی حد کو ختم کر دیا گیا ہے۔
حال ہی میں وفاقی مالیاتی ادارے ایف بی آر نے سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان میں ایک فیصد سے بھی کم لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں اور ذرائع کا کہنا ہے کہ ان ٹیکس گوشوارے حمع کروانے والوں میں سے بیشتر پورا ٹیکس نہیں دیتے اور موجودہ حکومت کو ٹیکس چوروں اور لٹیروں کے خلاف بلا متیاز حتمی کارروائی کرنے کا فیصلہ کرنا ہے۔
گزشتہ مالی سال کے دوران ملک بھر سے صرف 14 لاکھ افراد نے ٹیکس گوشوارے جمع کروائے ۔ حکومتی اعدادو شمار کے مطابق براہ راست ٹیکس کی مد میں 40 فیصد سے کم رقم جمع ہوتی ہے جبکہ زیادہ تر آمدن کا دارومدار 75 اقسام کے بلواستہ ٹیکسز پر ہے۔
2018کی آخری ٹیکس ایمنسٹی اسکیم میں شرح ٹیکس کو کم ترین سطح پر رکھا گیا تھا تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اسکیم سے فائدہ اٹھا کر اپنے چھپے ہوئے اثاثے ظاہر کر کے قانونی دائرے میں شامل ہو جائیں۔ اس اسکیم میں بیرون ملک اثاثےظاہر کرنے والوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ایک جو بیرون ملک پاکستانی کا درجہ رکھتے ہیں اور دوسرے جو پاکستان میں رہتے ہوئے بیرون ملک اثاثوں کے مالک ہیں۔ اسکیم میں ٹیکس کی شرح 2 فیصد سے 5 فیصد کے درمیان تھی جسے معاشی تجزیہ کار معمولی مانتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس اسکیم سے فائدہ نا اٹھانے والوں کو مزید رعایت دینے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں اور ان کے خلاف اب حتمی اور فیصلہ کن قانونی کارروائی کرتے ہوئے سخت ترین اور مثالی سزا دینے کا وقت آگیا ہے۔