Featuredبلاگ

سینچری ڈیل ، مٹھی بھر ڈالرز کے عوض سرزمین کا سودا

تحریر: علی احمدی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ فلسطین سے متعلق صدی کی ڈیل ( سینچری ڈیل ) نامی پیش کردہ منصوبہ درحقیقت مٹھی بھر ڈالرز کے عوض مقبوضہ فلسطین کے اکثر حصے سے اسرائیل کے حق میں چشم پوشی کرنے کا معاملہ ہے۔ یہ امر دراصل شدید اقتصادی اور سماجی بحرانوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے درد کیلئے پین کلر کی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکی حکومت کی جانب سے سینچری ڈیل جیسے منحوس اور ظالمانہ منصوبہ سامنے آنے میں بہت سے عوامل کارفرما ہیں۔ پہلا سبب اسرائیل کے معروف ترین تھنک ٹینکس جیسے ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد اور قومی سلامتی کے مشیر جیرڈ کشنر اور جیسن گرنبلیٹ ہیں۔ دوسرا سبب خلیجی عرب ریاستوں میں نئی نسل کے حکمران جیسے سعودی عرب کے ولیعہد محمد بن سلمان اور ابوظہبی کے ولیعہد محمد بن زائد کا برسراقتدار آنا ہے۔ تیسرا سبب مصر کی نئی حکومت اور اس کی جانب سے صدی کی ڈیل قبول کرنے کا رجحان ہے۔ چوتھا سبب یہ تصور ہے کہ فلسطین اتھارٹی کے سربراہان اسے قبول کرنے پر مجبور ہو جائیں گے اور اسلامی مزاحمتی گروہ بھی اس میں رکاوٹ نہیں بن سکیں گے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بحرین کی عالمی کانفرنس بھی بعض عرب حکمرانوں اور اسرائیل کے درمیان تعلقات میں فروغ کے علاوہ کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر پائے گی۔

ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی ٹیم کے وائٹ ہاوس آنے سے پہلے امریکی حکومتیں ہمیشہ عرب اسرائیل تنازعہ کو خطے کے ممالک میں اقتصادی ترقی اور پیشرفت سے گرہ لگاتی رہیں۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے، مصر کے اس وقت کے صدر انور سادات کی جانب سے فری ٹریڈ پالیسیز کا اتخاذ اور امریکہ کی جانب سے مصر کو مالی امداد کے آغاز میں تقارن اتفاقی نہیں تھا۔ مصر کے صدر انور سادات کی اقتصادی پالیسیز کے وحشت ناک نتائج سے ہٹ کر دیکھا جائے تب بھی انہوں نے دسیوں سال مسئلہ فلسطین کے حل کو خطے کے ممالک میں اقتصادی ترقی سے جوڑنے کی جو کوشش کی اس کا مقصد "یہودیوں کی ذہانت کو عرب سرمائے سے جوڑنا” تھا۔ اس پراجیکٹ کا آغاز 1991ء میں میڈریڈ کانفرنس سے ہوا جہاں سے نام نہاد امن پراسس کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد عرب اسرائیل مشترکہ مشرق وسطی ٹریڈ زون تشکیل دینے کی باتیں ہونے لگیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان فلسطینیوں کیساتھ ہے اور کسی قیمت پر اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جائے گا، القدس کانفرنس کا اعلامیہ

آج جیرڈ کشنر اور جیسن گرینبلیٹ نے جو حکمت عملی اختیار کی ہے اس کے نتائج گذشتہ امریکی حکومتوں کی جانب سے اختیار کی جانے والی اسٹریٹجیز کے نتائج سے برعکس ہیں۔ آج حتی مسئلہ فلسطین کو اسرائیل کے حق میں حل کرنے کے حامی ماہرین بھی موجودہ حکمت عملی کی کامیابی کے بارے میں شک و تردید کا شکار ہو چکے ہیں۔ بروکنگز تھنک ٹینک کے سنٹر فار مڈل ایسٹ پولیٹیکس سے وابستہ ماہر تامارا کافمین ویٹز کا کہنا ہے: "یہ کام (بحرین کی عالمی کانفرنس) بالکل ایسے ہے جیسے ایک ایسا عظیم ٹاور فروخت کیا جائے جس کا ابھی تک کوئی نقشہ ہی واضح نہیں کیا گیا۔ سیاسی پس منظر واضح کئے بغیر (سینچری ڈیل کا) اقتصادی پس منظر بیان کرنا فلسطینی عوام اور خطے کے دیگر ممالک کے ذہن میں یہ تصور پیدا کر سکتا ہے کہ فلسطین کاز کو خریدنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہ امر مستقبل میں منظرعام پر آنے والے سیاسی منصوبے کے بارے میں منفی فضا قائم کر دے گا۔”

اب تک امریکی حکام اور امریکہ اور اسرائیل کے ذرائع ابلاغ کی جانب سے صدی کی ڈیل کے سیاسی پہلو سے متعلق منظرعام پر آنے والی معلومات ظاہر کرتی ہیں کہ فلسطینی اور عرب عوام اور حکمرانوں کو مقبوضہ فلسطین کی سرزمین کے بڑے حصے اور اپنے مسلمہ حقوق سے اسرائیل کے حق میں چشم پوشی کرنے کیلئے رشوت دینے کی اعلانیہ کوششیں انجام پا رہی ہیں۔ امریکی حکومت قدس شریف اور گولان ہائٹس کو اسرائیل کی جعلی ریاست سے ملحق کرنے پر راضی ہو چکی ہے اور اس کا یہی فیصلہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو مغربی کنارے کا بڑا حصہ ہڑپ کر جانے کی ترغیب دلانے کیلئے کافی ہے۔ دوسری طرف امریکہ نے فلسطینی مہاجرین سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے "انروا” کی مالی امداد بھی بند کر دی ہے تاکہ اس طرح فلسطینی مہاجرین کی وطن واپسی کا مسلمہ حق دبا دیا جائے اور صدی کی ڈیل کو عملی جامہ پہنانے کی راہ ہموار کی جا سکے۔ مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں واضح ہو جاتا ہے کہ امریکہ فلسطینیوں کیلئے ایک ایسی ریاست قائم کرنا چاہتا ہے جو ایکدوسرے سے علیحدہ اور لاتعلق جزیروں کی صورت میں ہو اور اسے فلسطینی سرزمین کے جزیروں کا نام دیا گیا ہے۔

نوٹ: ادارہ کا مقالہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close