خواتین مے نوشی میں مردوں کے برابر پہنچنے کو ہیں
سنہ 1891 سے سنہ 2001 کے درمیان پیدا ہونے والے تقریبا 40 لاکھ لوگوں کے جائزے سے پتہ چلا ہے کہ مرد پینے کی جانب جلدی راغب ہوتے ہیں اور اس کے سبب ان کے صحت کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
لیکن بی ایم میں بتایا گیا ہے کہ نئی نسل نے مئے نوشی کے معاملے میں مردوں اور خواتین میں موجود وسیع خلیج کو بہت حد تک کم کردیا ہے۔
معاشرے میں خواتین اور مردوں کے بدلتے ہوئے کردار کچھ حد تک مے نوشی کے معاملے میں برابری کا جواز پیش کرتے ہیں۔
مطالعے میں یہ پایا گیا ہے کہ بیسویں صدی کے اوائل میں پیدا ہونے والے مردوں کا خواتین کے مقابلے میں:
- مے نوشی کی جانب جانے کا دو گنا سے بھی زیادہ (2۔2) امکان تھا۔
- اور مسائل پیدا ہونے کی حد تک پینے کا امکان تین گنا تھا
- اور 6۔3 گنا امکان تھا کہ وہ شراب نوشی کے باعث صحت کے مسائل جیسے جگر کی بیماری کا شکار ہوں
لیکن وقت کے ساتھ اس خلیج میں کمی آتی گئی اور پھر بیسویں صدی کے اواخر میں پیدا ہونے والے مرد، خواتین کے مقابلے:
- شراب نوشی کی جانب صرف 1۔1گنا زیادہ رغبت رکھتے ہیں۔
- اور مسائل پیدا ہونے کی حد تک شراب نوشی صرف 2۔1 گنا زیادہ رہ گئی ہے۔
- جبکہ مئے نوشی سے صحت کے مسائل پیدا ہونے کے معاملے میں یہ فرق صرف 3۔1 گنا رہ گیا ہے۔
آسٹریلیا میں نیوساؤتھ ویلز کی ایک ٹیم نے دنیا بھر سے اعداد و شمار کا تجزیہ کیا جن میں زیادہ تر شمالی امریکہ اور یورپ کے تھے۔
وہ اپنے مطالعے میں اس نتیجے پر پہنچے کہ ‘شراب خوری اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کو تاریخی طور پر مردوں کی چیز تسلیم کیا جاتا تھا۔ لیکن حالیہ مطالع اس مفروضے پر سوال اٹھاتا ہے اور اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ اب مے نوشی کے اثرات اور اس سے پیدا ہونے والے نقصانات کے تعلق سے بطور خاص نوجوان خواتین کی جانب توجہ دی جانی چاہیے۔’
لندن سکول آف ہائیجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسین کے پروفیسر مارک پیٹیکریو نے کہا: ‘گذشتہ دہائیوں میں مردوں اور خواتین کے کرداروں میں تبدیلی آئي ہے جو کہ اس رجحان کے بعض اسباب ہو سکتے ہیں لیکن تمام نہیں۔
‘اس کی ایک وجہ اس کی آسانی کے ساتھ دستیابی ہے اور شراب کی مارکیٹنگ میں خاتون اور بطور خاص نوجوان خواتین کو نظر میں رکھا جاتا ہے۔’
انھوں نے کہا کہ ‘صحت کے شعبے میں کام کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ مردوں اور خواتین دونوں کو شراب نوشی کے خطرات سے آگاہ کریں اور اس کم کرنے کے طریقے بتائیں۔’