مقدس صحافت کا آخری چراغ بجھ گیا
بڑی سرکاری نوکریاں کرنے والوں کی زندگی بڑی شاہانہ ہوتی ہے لیکن جو لوگ اپنا مقصد حیات واضح رکھتے ہوں انکی منازل اپنے ہم عصروں سے جدا ہوتی ہیں اور وہ ملازمت کو بامقصد بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ۔زاہد ملک صاحب نے سرکاری ملازمت کے دوران اپنے نصب العین سے روگردانی نہیں کی بلکہ ملکی ترقی میں بڑا جامع کردار ادا کیا۔اس دور میں جو لوگ انکے ساتھ سرکاری ملازمت میں تھے اور بیوروکریسی کو قریب سے دیکھ رہے تھے انہیں ملک صاحب کے جذبے اور نیت کا بھی علم تھا۔وہ روایتی بیوروکریٹ نہیں تھے۔کنور محمد دلشاد سابق فیڈرل سیکرٹری الیکشن کمیشن رہ چکے ہیں ۔1972 – 1977 کے دوران وہ زاہد ملک صاحب کےساتھ وزارت اطلاعات اور مذہبی امور میں ڈائریکٹر تھے۔انہوں نے ملک صاحب کی سوچ کو عملاً پنپتے دیکھا ۔وہ کہتے ہیں۔
”میرا مرحوم زاہد ملک سے جون 1972 میں تعلق قائم ہوا۔اس وقت زاہد ملک کو مولانا کوثر نیازی مرحوم کی خصوصی ہدایات پر پاکستان نیشنل سنٹر کا ایگزیکٹو ڈائریکٹر مقرر کیا گیا تھا۔ بعد ازاں ان کو ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر جولائی 1974 میں ترقی دے دی گئی ۔مجھے فخر ہے کہ میں نے مرحوم زاہد ملک کے ہمراہ بطور ڈائریکٹر وزارت اطلاعات و نشریات پاکستان نیشنل سینٹر کام کیا۔ ملک صاحب نیشنل سنٹرز کے پلیٹ فارم سے کچھ اسیے کام کرنا چاہتے تھے جس ملک میں تعلیم اور روزگار کے مواقع بڑھتے لہذا انہوں نے پاکستان نیشنل سنٹر میں پشتو اور عربی زبانوں کو فروغ دینے کے لئے با قاعدہ کورسز کا اہتمام کرایا ۔اس سے ملک بھر میں عربی زبان کی ترویج سے طلباءمیں قرآن پاک کو پڑھنے میں بڑی مدد ملی اور عربی زبان کے فروغ سے بڑی تعداد میں نوجوانوں کو مشرق وسطیٰ میں ملازمت کے حصول میں آسانیاں پیدا ہو گئیںاور پاکستان نیشنل سنٹر سے جاری کردہ سند کی وجہ سے ان کے لئے مشرق وسطیٰ میں ملازمتوں کے دروازے کھل گئے۔ اسی طرح پشتو زبان سیکھنے کے لئے نیشنل سینٹر پشاور میں سرکاری ملازمین جو پشتو زبان سے نابلد تھے، انہوں نے بڑی مہارت سے پشتو زبان پر عبور حاصل کر کے صوبہ سرحد میں پرائیویٹ کمپنیوں میں ملازمتیں حاصل کیں۔ پشتو زبان کے انچارج پشاور یونیورسٹی کے پشتو ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ پروفیسر اعظم خا ن اعظم تھے ۔ پاکستان کے معتبر دانشور، مفکر اور ادبی حلقوں میں ان کا ایک خاص مقام تھا۔ ان سے آئی ایس آئی کے اس وقت کے ڈائریکٹر کرنل اسلم بودلہ نے خصوصی طور پر پشتو زبان اپنے گھر میں سیکھنے کا انتظام میری وساطت سے کروایا تھا کیونکہ ان دنوں میں جون 1972 سے 1973 تک پاکستان نیشنل سنٹر پشاور کا ڈائریکٹر تھا۔ کرنل اسلم بودلہ نے پشتو زبان میں اعلیٰ درجہ کی مہارت حاصل کر کے نیشنل عوامی پارٹی کے تمام ریکارڈ اور ان کی روئیداد جو پشتو زبان میں ہوا کرتی تھی ان تک رسائی حاصل کر لی تھی اور افغانستان تک ایسے لٹریچر، کتابوں اور دیگردستاویزات تک کرنل اسلم بودلہ کی آسانی سے پشتو زبان کی مہارت کی وجہ سے رسائی ہوگئی۔ جب حکومت نے غالباً جون 1974 میں نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کر دی تو کرنل اسلم بودلہ ہی حکومت کے اہم گواہ تھے، جب خان ولی خان نے سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران کرنل اسلم بودلہ پر اعتراض لگایا کہ وہ پشتو زبان سے بالکل نابلد ہیں اور ان کی دستاویزات حقائق کے بر عکس ہےں تو کرنل اسلم بودلہ نے چیف جسٹس آف پاکستان حمو د الرحمن اور دیگر ججز کی موجودگی میں ثبوت کے طور پر پاکستان نیشنل سینٹر کی سند پیش کی کہ انہوں نے پاکستان نیشنل سینٹر سے پشتو زبان کی تربیت حاصل کر رکھی ہے، لہذا کرنل اسلم بودلہ کے حقائق اور ثبوت کی بنیاد پر نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کر دی گئی۔
مرحوم زاہد ملک نے مئی 1973 میں پاکستان نیشنل سینٹر میں لائبریری کورسز شروع کروائے اور پاکستان نیشنل سینٹر کے چیف لائبریرین سید حسن کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک بھر کے نیشنل سینٹرز میں لائبریری کے کورسز کروا کے سینکڑوں طلباء و طالبات کو لائبریرین کی اسناد تقسیم کروائیں جس کی وجہ سے پاکستان کی تقریباً تمام لائبریریوں میں ان کے تربیت یا فتہ لڑکے اور لڑکیاں ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئیں اور ان کی جانب سے یہ صدقہ جاریہ جاری رہا اور تقریباً ہر سکول و کالج اور یونیورسٹی کی لائبریریوں میں پاکستان نیشنل سینٹر سے لائبریرین اسناد حاصل کرنے والوں کی ہی موجودگی پائی جاتی رہی۔
مولانا کوثر نیازی کو جب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے وزارت اطلاعات و نشریات سے تبدیل کر کے وزارت مذہبی امور تقویض کی تو یہ وزارت ایک نجی بنگلہ تک ہی محدود تھی جس کے سربراہ تجمل حسین تھے اور مولاناکوثر نیازی کی خواہش پر زاہد ملک کو اس نئی وزارت کا جوائنٹ سیکریٹری دسمبر 1974 میںمقرر کر دیا۔ یہاں پر انہوں نے مرحوم حکیم سعید کی معاونت سے انٹرنیشنل سیرت کانگرس کا انعقاد کیا اور خانہ کعبہ کے امام صاحب بھی مدعو کئے گئے اور سعودی عرب کے شاہ خالد بھی خصوصی طور پر پاکستان تشریف لائے۔ شاہ خالد کو قرآن پاک کے خوبصورت نسخے تاج کمپنی سے خصوصی طور پر تیار کروائے گئے اور مولانا کوثر نیازی اور سیکریٹری تجمل حسین کی ہدایات پر میں نے ہی قرآن پاک کے قیمتی نادر نسخے اور پاکستانی قالین کے نسخے شاہ خالد کی خدمت میں پیش کئے اور یہاں پر مجھے زاہد ملک کی ہی سر پرستی حاصل تھی۔
5 جولائی 1977 کو ملک میں مارشل لاءنافذ ہونے سے انتظامی اصلاحات کا دور شروع ہوگیا، مسٹر ذوالفقار علی بھٹو نے سوشلسٹ ممالک کی طرز پر بیوروکریسی میں اپنی گرفت مضبوط کر نے کے لئے لیٹر انٹری سکیم کے ذریعے حکومتی اداروں میں اپنے وفادار ساتھیوں کو اہم عہدوں پر فائز کر وا دیا تھا اور ہر وفاقی وزیر ، وزیر اعلیٰ ، گورنر اور پارٹی کے اہم عہدیداران نے اپنے اپنے کوٹے سے ایسے افراد کو حکومتی مروجہ سکیم کے ذریعے اپنے دوستوں ، رشتے داروں اور پارٹی کے رہنماو¿ں کو Establishment Division کے سیکریٹری وقار احمد کے ذریعے کھپا دیا تھا جس کی وجہ سے پاکستان کا انتظامی ڈھانچہ زمین بوس ہوتا جا رہا تھا اور مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کے ہزاروں فدا کار حکومتی حلقوں میں سمو دئیے گئے تھے لہذا جنرل ضیاءالحق نے غلام اسحاق خان سیکریٹری جنرل حکومت پاکستان کے مشورے سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں ان تمام آفیسران کو ملازمت سے بر طرف کر دیا جو لیٹر اینٹری سکیم کے ذریعے حکومت کے اداروں میں فائز تھے لہذا زاہد ملک بھی جو لیٹر انٹری کے ذریعے جوائنٹ سیکریٹری مقرر کئے گئے تھے وہ بھی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے، ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد ان کے اندر جو خداداد صلاحیتیں بدرجہ اتم موجود تھیں ان کو بروئے کار لاتے ہوئے انہوں نے مجید نظامی مرحوم کے اخبار نوائے وقت راولپنڈی میں بطور ریذیڈنٹ ایڈیٹر ملازمت اختیار کر لی اور یہاں کچھ عرصے بعد ان کے عارف نظامی اور نوائے وقت کی انتظامیہ کے بعض پیشہ ور صحافیوں سے اختلاف پیدا ہو گئے اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے ان سے اسلام، پاکستان، قائداعظم ، قرآن مجید، عرب ممالک سے تعلقات استوار کرنا، ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور بعد ازاں پاک چین دوستی کی صحیح سمت پر کام لینا مقصود تھا، لہذا انسان کی ترقی کے راستے اللہ تعالیٰ ہی متعین کرتا ہے، لہذا نوائے وقت کی خار دار جھاڑیوں سے انہوں نے اپنی علیحدہ راہ متعین کی اور نوائے وقت کو خیر باد کہہ دیا اور ہفت روزہ حرمت کی بنیاد ڈالی۔ اگر وہ نوائے وقت کی انتظامیہ سے مفاہمت کر لیتے تو وہ پھر ان کی حیثیت جناب جاوید صدیق سے آگے نہ بڑھتی اور ہفت روزہ حرمت کے بعد انہوں نے روزنامہ الاخبار کا اجراءکیا لیکن مالیاتی مشکلات کی وجہ سے بعد ازاں اسے غلام اکبر کو پیش کر دیا اور ابھی بھی روزنامہ الاخبار غلام اکبر کی ادارت میں چل رہا ہے ۔
یہاں میں آپ کو عجیب بات بتاو¿ں کہ نظریہ پاکستان کونسل کے قیام کے بعد مجید نظامی ان سے شدید ناراض ہوگئے۔لیکن زاہد ملک نے کبھی ان سے پرخاش نہیں رکھی۔مجید نظامی مرحوم نے انہیں دل سے نکال دیا تھا لیکن زاہد ملک نے ہمیشہ ان کا احترام کیا اور ہر اس تقریب میں بن بلائے چلے جاتے جو مجید نظامی مرحوم کے اعزاز میں ہوتی ،وہ ان سے ملتے اور ادب بجا لاتے،حالانکہ انہوں نے نظریہ پاکستان کونسل میں مجید نظامی مرحوم کے نام سے ایک چئیر رکھی اور اپنے کمرے میں بھی انکی فوٹو آویزاں رکھی۔
زاہد ملک صاحب نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے اسلامی بم کے نام سے کتاب کی اشاعت کی تو بے نظیر بھٹو کا پہلا دور تھا، کتاب کے مواد سے بعض عناصر بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے اور انہوں نے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو یہ باور کروایا کہ اسلامی بم کی اشاعت سے پاکستان کے ایٹم بم بنانے کے طریقے کار کا راز ظاہر ہونے سے دشمن ممالک فائیدہ حاصل کر سکتے ہیں اور پاکستان پر معاشی پابندی لگنے کے امکانات پیدا ہو جائیں گے لہذا ان کو سیکرٹ ایکٹ کے تحت ایف۔آئی۔اے نے گرفتار کر لیا، پنجاب میں چونکہ نواز شریف وزیر اعلیٰ تھے ، انہوں نے ان کی گرفتاری سے سیاسی فوائد حاصل کرنے کی کوشش بھی کی اور مذمت بھی کی، ان دنوں وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے مشیر خاص رائو عبدالرشید خان تھے، میں نے ان کی وساطت سے ایف۔آئی۔اے حکام کی تحویل میں زاہد ملک سے ملاقات کی اور انہیں تسلی دی کہ راو¿ عبدالرشید خان ان کے بارے میں غلط فہمیوں کے ازالے کے لئے کوشش کر رہے ہیں، لہذا راو¿ عبدالرشید خان کی در پردہ کوششوں سے زاہد ملک صاحب کو ایف ۔آئی۔اے سے نجات ملی! اسی پس منظر میں جولائی 1976 میں بھی راو¿ عبدالرشید خان نے جب وہ وزیر اعظم بھٹو کے سپیشل سیکریٹری تھے، زاہد ملک کو مشورہ دیا تھا کہ وہ مولانا کوثر نیازی کے سحر سے نکلنے کی کوشش کریں کیونکہ مولانا کوثر نیازی ملک میں کسی خصوصی طاقت کی شہ پر فرقہ وارانہ فسادات کرانے کی سازش کر رہے ہیں اور حکومتی ادارے ان پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہےں! راو¿ عبدالرشید خان کی سفارش پر زاہد ملک کو منسٹری ٹورازم میں جوائنٹ سیکریٹری مقرر کرنے کے بھی کوشش کی گئی تھی ۔غالباً مارشل لاءکے نفاذ سے پیشتر مسٹر زاہد ملک مولانا کوثر نیازی سے اپنا تعلق تقریباً ختم کر چکے تھے۔
زاہد ملک صاحب انتہائی شفیق، محبت کرنے والے، دوستوں کا خاص خیال رکھنے اور اپنے احباب میں بے حد مقبول شخص تھے لیکن ان تمام خوبیوں کے باوجود صحافتی حلقوں میں ان کے حاسد ین کی بھی کمی نہ تھی اور انہوں نے ان کی تقاریب کو نظر انداز کئے رکھا ۔ بے شک ان تقاریب کی صدارت صدر مملکت ہی کرتے رہے اور مجھے بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ان کی رحلت کی خبر کو بھی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے ان کی شان کے مطابق Coverage نہیں دی بلکہ سادہ الفاظ میں کہا جا سکتا ہے مکمل بائیکاٹ کئے رکھا ۔فیصل ملک، گوہر زاہد ملک ، عمر ملک، صاحبزادی سعدیہ ملک اور ریحانہ ملک بیگم صاحبہ روزنامہ پاکستان آبزرورکے قیمتی اثاثہ ہیں، ان کو چاہئے کہ زاہد ملک مرحوم کے مشن کو لیکر آگے چلیں اور جو روایات انہوں نے چھوڑی تھیں اس کو برقرار رکھیں، اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنی جوار رحمت میں جگہ دے (آمین)۔