مظلومین کشمیر اور مظلومین یمن!
کیا کشمیر اور یمن کے مظلوموں میں کسی قسم کا فرق موجود ہے؟
کیا بھارت کے اور سعودی عرب کے مظالم میں کسی قسم کا فرق موجود ہے؟ کیا اسرائیل کی غاصب افواج کی جانب سے فلسطینیوں کا قتل عام ظلم نہیں کہلائے گا؟
ہماری غلط پالیسیوں نے ہی ہمیشہ ہمیں رسوا کیا ہے۔ آج اگر ہم دنیا میں مظلوم اقوام میں تقسیم کرنا شروع کر دیں گے تو پھر کبھی بھی کشمیر کا مقدمہ موثر انداز میں پیش نہیں کیا جا سکتا ہے۔
تحریر: صابر ابو مریم
میڈیا پر خبریں گردش کر رہی ہیں کہ پاکستان کے وزیر خارجہ انسانی حقوق کونسل میں کشمیر کے عنوان پر قرار داد جمع کروانے کے لئے سولہ ممالک کی حمایت لینے میں ناکام رہے جس کے باعث یہ قرار داد فلور پر پیش ہونے سے قاصر رہی حالانکہ اسی انسانی حقوق کونسل میں سولہ سے زائد مسلمان اسلامی ممالک بھی موجود تھے جن کے لئے پاکستان ہر مقام پر گاہے بہ گاہے اپنی خارجہ پالیسی کی بھی پروا نہیں کرتا لیکن افسوس کی بات ہے کہ ان تمام ممالک میں سولہ ایسے ممالک بھی پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونے کو تیار نہیں تھے کہ جو اس قرار داد کو جمع کروانے کے لئے اس پر دستخط ہی کر دیتے۔
یہ خبریں دیکھ کر پاکستان کی خارجہ پالیسی پر شدید دکھ کا احساس ہوا کہ آخر ہماری پالیسی کو کیا ہو اہے؟ کیوں آخر پاکستان جیسے بڑے اسلامی ملک کے ساتھ کھڑے ہونے والے سولہ ممالک بھی نہیں ہیں؟آخر کیوں شاہ محمود قریشی کے ہاتھوں کشمیر کا مقدمہ روزانہ کی بنیادوں پر کمزور سے کمزور ہو رہا ہے؟ ان سوالات کے جواب کے لئے جستجو کرنے سے معلوم ہو اکہ ماضی قریب میں یہی وزیر خارجہ جب اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا بیان دے سکتے ہیں تو پھر کس منہ سے کشمیر میں ہونے والی بھارتی مظالم کو ظلم کہہ سکتے ہیں؟
اسی طرح کی ایک اور قرار داد بھی انسانی حقوق کی کونسل میں پیش کی گئی، یہ قرار داد یمن کے عنوان سے پیش کی گئی تھی کہ جہاں سعودی حکومت کی جانب سے مسلط کردہ جنگ کے باعث دسیوں ہزار بے گناہ انسان موت کی نیند سو چکے ہیں۔ اس قرار داد پر پاکستان نے دستخط نہیں کئے یقینا یہ قرار داد شاہ محمود قریشی صاحب کی میز پر پہنچی ہو گی جس کو انہوں نے پڑھنے یا نہ پڑھنے کے بعد اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا ہو گا کیونکہ اس قرار داد میں سعودی حکومت کے ظلم کی داستانیں موجود تھیں۔ اب ذرا خود بتائیے کہ ایک طرف کشمیر میں ہونے والا ظلم و بربریت ہے جس کی ذمہ دار بھارتی افواج و حکومت ہیں اور دوسری طرف یمن پر مسلسل چار برس سے سعودی افواج کی بمباری اور حملوں کے نتیجہ میں ہونے والی دسیوں ہزار اموات اور بمباری اور مہلک ہتھیاروں کے استعمال کے سبب وبائی امراض کا شکار ہونے والے لاکھوں بے گناہ انسان ہی۔ کیا کشمیر اور یمن کے مظلوموں میں کسی قسم کا فرق موجود ہے؟ کیا بھارت کے اور سعودی عرب کے مظالم میں کسی قسم کا فرق موجود ہے؟ کیا اسرائیل کی غاصب افواج کی جانب سے فلسطینیوں کا قتل عام ظلم نہیں کہلائے گا؟
جب اسرائیل ظالم ہے، بھارت بھی ظالم ہے تو پھر سعودی عرب کی حمایت میں کیوں وزیر خارجہ نے قرار داد پر دستخط نہیں کئے؟ کیوں پاکستان کو ایسے موڑ پر کھڑا کر دیا کہ جہاں یمن کے مظلوموں اور کشیر کے مظلوموں میں تقسیم پیدا کر دی؟
میرا سوال پاکستان کے تمام ذی شعور انسانوں سے ہے کہ جب پاکستان ایک طرف انسانی حقوق کی بد ترین پامالیوں کے عنوان سے پیش ہونے والی قرار داد پر دستخط نہیں کرے گا تو دوسری طرف خود کس منہ سے کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی بد ترین پامالیوں کے لئے قرار داد پر دوسرے ممالک کی حمایت مانگے گا؟ کیا پاکستان کی خارجہ پالیسی کے اس طرز عمل نے پاکستان کے آئین و دستور کے خلاف اقدامات نہیں کئے؟ کیا قائد اعظم محمد علی جناح کی تعلیمات یہی ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ دوستانہ کرو؟ کیا قائد اعظم نے یہی دستور بنایا تھا کہ یمن میں انسان قتل ہوں تو پاکستان قاتل کے ساتھ کھڑا ہو جائے اور کشمیر میں انسان قتل ہو جائیں تو پاکستان مقتول کے ساتھ ہو؟ آخر ایک ہی مقام پر کس طرح پاکستان ایک کیس میں قاتل اور دوسرے میں مقتول کا ہمدرد بن کر کشمیر کا مقدمہ جیت سکتا ہے؟بہر حا ل پاکستان نے یمن کے حوالے سے پیش کی جانے والی قرار داد پر دستخط تو نہیں کئے لیکن یہ قرار داد دیگر ممالک کی حمایت سے بحث کے لئے منتخب کر لی گئی البتہ پاکستان کی جانب سے کشمیر کے موضوع پر پیش کردہ قرار داد مطلوبہ حمایت نہ حاصل ہونے کے باعث ناکامی کا شکار ہو گئی۔
ہماری غلط پالیسیوں نے ہی ہمیشہ ہمیں رسوا کیا ہے۔ آج اگر ہم دنیا میں مظلوم اقوام میں تقسیم کرنا شروع کر دیں گے تو پھر کبھی بھی کشمیر کا مقدمہ موثر انداز میں پیش نہیں کیا جا سکتا ہے۔
مظلوم چاہے فلسطین کا ہو، کشمیر کا ہو، یمن کا ہو،لبنان و شام کا ہو، عراق و ایران کا ہو، افغانستان کا ہو یا پھر برما کا ہو یا پھر کسی اور خطے کا ہو، مظلوم کی پہچان صرف یہی ہے کہ مظلوم مظلوم ہی ہے۔اسی طرح ظالم چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر ہو، ظالم چاہے کسی بھی شکل میں ہو، بھارت کی شکل میں، اسرائیل کی صورت میں، سعودی عرب یا امریکہ کی صورت میں، اسی طرح کسی اور صورت میں موجود ہو ظالم کی پہچان صرف اورصرف ظالم ہے۔
یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی ایک طرف قاتل کی حمایت کرے اور دوسری طرف دوسرے قاتل کو ظالم و قاتل ثابت کرنے کی کوشش کرے تو کس طرح مطلوبہ نتائج حاصل ہو پائیں گے۔ کہ جب ایک مقام پر ایک قاتل کی حمایت اور دوسرے مقام پر دوسرے قاتل کی مخالفت؟
خلاصہ یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان صاحب فی الفور وزارت خارجہ کے عنوان سے تفصیلی جائزہ لیں اور شاہ محمود قریشی صاحب کو کچھ عرصہ کے لئے ذہنی سکون کرنے کے لئے رخصت دے دیں۔پاکستان کی خارجہ پالیسی قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے بنائے گئے سنہرے اصولوں کی روشنی میں مرتب کی جائے اور اس پر عمل بھی کیا جائے اور آئین پاکستان کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے وطن عزیز اور ملت پاکستان کے وقار اور عزت و سربلند ی کے لئے ایسے اقدامات سے گریز کیا جائے جو دنیا میں پاکستان کے لئے ہزیمت و پشیمانی کا باعث بنیں۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔