بلاگ

رہنا امریکہ میں مگر پھر بھی دل ہے پاکستانی

فاطمہ ڈونلڈ ٹرمپ کو بالکل پسند نہیں کرتیں۔ ان کا شمار بھی ان ووٹرز میں ہوتا ہے جو مجبوری میں ہلیری کو ووٹ دے رہے ہیں۔

لیکن فاطمہ امریکہ میں صدارتی انتخاب پر نہیں بلکہ امریکہ میں مقیم پاکستانی نژاد امریکی خاندانوں کے طرز زندگی پر بات کرنا چاہتی تھیں۔

فاطمہ کے والدین 30 برس پہلے امریکہ منتقل ہوئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘آج سے برسوں پہلے ہمارے والدین امریکہ آئے اور یہاں کے شہری ہونے کے باوجود بھی وہ امریکہ کو اپنا گھر نہیں سمجھتے۔ پاکستان کو ہی اپنا گھر مانتے ہیں، وہاں ہی عالی شان گھر بناتے ہیں جہاں وہ کئی سالوں میں صرف ایک مرتبہ جاتے ہیں۔’

فاطمہ کا پاکستان سے امریکہ منتقل ہونے والے پاکستانیوں کے بارے میں کہنا ہے کہ ‘پوری زندگی امریکہ میں محنت کر کے گزار دیتے ہیں اور رہنے کے لیے ایک مناسب گھر بھی امریکہ میں لینا انھیں پسند نہیں۔’

ذاتی زندگی کے بارے میں بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ فاطمہ کی شادی کو ہوئے دو سال ہوگئے ہیں۔ جب شادی کے بارے میں بات ہو رہی تھی تو وہ فوراً بولیں کہ میں نے کزن سے نہیں بلکہ اپنی پسند کی شادی کی ہے۔

ان کے لہجے سے لگا کہ جیسے وہ نظریاتی طور پر اپنے ورثے میں ملے رسم و رواج اور امریکی معاشرے میں بٹ کر رہ گئی ہوں۔

لیکن ان کے جذبات سمجھنے میں مجھے اس لیے بھی آسانی ہوئی کیونکہ امریکہ میں گھوم پھر کر مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ ہیوسٹن سے لے کر نیویارک تک بیشتر متوستط طبقے کے پاکستانی خاندان رہتے تو امریکہ میں ہیں مگر پاکستانی برداری سے باہر میل جول انہیں زیادہ پسند نہیں۔

بیشتر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے آئے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ انھیں یہ خوف کھائے جا رہا ہے کہ ان کے بچے کہیں امریکی معاشرے میں رچ بس نہ جائیں۔

یہی وجہ ہے کہ بعض بچے فاطمہ کی طرح شاید امریکی معاشرے اور والدین کے دباؤ کے درمیان جیسے بٹ کر رہ گئے ہوں۔

ٹیکسس کے پاکستانی نژاد امریکی شہری پاکستان سے بے انتہا محبت تو کرتے ہیں مگر وہاں رہنا ناممکن سمجھتے ہیں لیکن وہ ’قدامت پسند‘ سوچ پر بھی فخر کرتے ہیں۔

انھیں تو میری جیسی پاکستان سے آنے والی لڑکیوں کا بھی جینز پہننا بھی پسند نہیں۔

ایک پاکستانی نژاد امریکی شہری نے دو دن ہمارے ساتھ گزارنے کے بعد میرے ساتھی سے کہا ‘آپ پلیز میڈیم سے کہیں وہ ذرا مناسب کپڑے پہن کر آئیں کیونکہ ہماری پاکستانی کمیونٹی اتنی لبرل نہیں۔’

ویسے میں نے نیلی جینز اور پورے بازو والی کالی شرٹ پہن رکھی تھی۔ سمجھ نہیں آیا کہ انھیں کیا پسند نہیں آیا اور میں نے پوچھنے کی کوشش کرنا بھی لازم نہیں سمجھا۔

امریکہ کی پاکستانی آبادی شاید پاکستان سے زیادہ مذہبی اور جنوبی ایشیائی شناخت سے جڑی ہے۔

انڈیا کے بارے میں جو جذبات پاکستان میں دیکھنے کو ملتے ہیں وہی یہاں بھی بیشتر افراد میں پائے جاتے ہیں۔ ہمارے ایک ٹیکسی ڈرائیور نے تو یہ کہہ کر چائے پینے سے بھی انکار کر دیا کہ یہ انڈین کی دکان ہے۔

امریکی صدارتی انتحابات میں یہ بھی ٹکراؤ جاری ہے اور بظاہر ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ بیشتر انڈین ڈونلڈ ٹرمپ کو اور پاکستانی ہلیری کلنٹن کو ووٹ دینے والے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close