بلاگ

باچا خان پاکستان کے نہیں تقسیم ہند کے مخالف تھے

یہ بات یہاں لندن میں قائم سکول آف اوریئنل اینڈ ایفریکن سٹڈیز یا سوئیس میں منعقدہ ایک مذاکرے میں کہی گئی جس کا عنوان تھا ‘باچا خان کی عدم تشدد کی خدائی خدمتگار تحریک اور عصر حاضر۔’ مذاکرے کا اہتمام سماجی تحقیق کی تنظیم بلومزبری پاکستان نے کیا تھا۔

مذاکرے کے شرکاء کا کہنا تھا کہ تقسیمِ ہند کے بعد بعض عاقبت نااندیش حلقوں نے اپنی ذاتی سیاسی مفادات کی وجہ سے پاکستان میں ان کی شخصیت کو مسخ کرکے پیش کیا۔

صوبہ سرحد اور موجودہ خیبرپختونخوا میں باچا خان کی خدائی خدمت گار تحریک پر ایک کتاب کی مصنفہ ڈاکٹر مُوکُولیکا بینرجی کا کہنا تھا لوگوں کو اتنے بڑے پیمانے پر متحرک کرنے والی یہ ایک عظیم تحریک تھی جس کے پیچھے باچاخان کی شخصیت اور فکری توانائی کارفرما تھی۔

‘باچاخان نے گاؤں گاؤں جاکر آزاد سکول کے نام سے بنیادی تعلیمی ادارے قائم کیے اور انگریز استعمار کے خلاف پختون عوام میں شعور بیدار کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو گاؤں کی صفائی جیسے رفاہِ عامہ کے کام پر لگایا۔ اپنے علاقے کا خان ہونے کے باوجود انہوں نے ہاتھ میں جھاڑو پکڑی اور دوسروں کو بھی صفائی کی ترغیب دی۔’

ڈاکٹر بینرجی کا کہنا تھا کہ اپنی جنگجویانہ فطرت کے لیے مشہور پختون عوام کو انہوں نے جس طرح عدم تشدد اور پرامن طریقے سے اپنے مقصد کے حصول کے لیے متحرک کیا اس کی مثال کم ملتی ہے۔

نوبیل انعام یافتہ پاکستانی طالبہ ملالہ یوسفزئی کے والد ضیاالدین یوسفزئی نے کہا کہ خود ان کی فکری نشو نما ایک ایسے گھرانے میں ہوئی جہاں خدائی خدمتگار تحریک کے چرچے تھے۔ اس لیے جب سوات میں مذہبی حلقوں کی طرف سے کیے جانے والے تشدد کے خلاف حکومت نے انہیں لشکر بنانے کو کہا تو انہوں نے صاف انکار کر دیا۔

‘میرے والد مجھے باچاخان کے قصے سنایا کرتے تھے۔ اگر باچاخان نہ ہوتے تو میں انتہاپسند بن چکا ہوتا۔ اگر آج میں عدم تشدد کا حامی، امن پرست اور مبحت کا قائل ہوں تو یہ سب باچاخان تعلیمات کا اثر ہے۔

مذاکرے کے شرکاء کی جانب سے اٹھائے گئے ایک نقطے پر کہ باچا خان پاکستان کے مخالف تھے عوامی نیشنل پارٹی برطانیہ کے صدر جاوید اخونزادہ نے کہا کہ باچا خان نے پاکستان کی مخالفت کبھی نہیں کی، بلکہ وہ ہندوستان کی تقسیم کے مخالف تھے کیونکہ ان کے خیال میں ہندوستان کی تقسیم مسلمانوں کے مفاد میں نہیں تھی۔

باچا خان نے عدم تشدد کا تصور کہاں سے لیا اور پختوں معاشرے میں اس کی ترویج کیسے ممکن ہوئی؟

پشتو کے داؤد اعظمی اس بات کو غلط قرار دیتے ہیں کہ باچا خان مہاتما گاندھی کے فلسفۂ عدم تشدد سے متاثر تھے۔

‘باچا خان کے فلسفۂ عدم تشدد کی بنیادیں چار تھیں: پہلے اسلام، خاص طور سے پیغمرِ اسلام کی مکّی زندگی۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے پیغمبرِ اسلام سے عدم تشدد سیکھا۔ پھر تصوف جس کا جنوبی ایشیا میر بڑا اثر تھا، تیسرے بدھ مت جو اسلام سے پہلے اس علاقے میں بہت بڑا مذہب تھا۔ اور چوتھے انہوں نے پختونولی یا پختون ضابطۂ حیات میں ‘ننہ واتئے’ یا معافی کے اصول کو اپنایا۔ باچا خان نے اپنے لوگوں سے کہا کہ دشمن کا مقابلہ پرامن طریقے سے کرنا بھی پختونولی ہے۔’

داؤد اعظمی کا کہنا ہے کہ باچا خان نے مہاتما گاندھی سمیت دوسرے راہنماؤں سے عدم تشدد کے حربے تو سیکھے مگر نظریہ ان کا اپنا تھا۔

ڈاکٹر موکولیکا بینرجی کے مطابق افغانستان کے شہر جلال آباد میں اپنی تدفین کی وصیت بھی منقسم ہندوستان میں اقلیتوں کے خلاف جاری مختلف طرح کے تشدد کے خلاف ان کا پرامن احتجاج تھا۔

عبدالغفار خان، متحدہ ہندوستان کے لیے سرحدی گاندھی اور اپنے پیروکاروں کے لیے باچا خان، انڈیا کی تحریک آزادی کے چند اہم ترین راہمناؤں میں سے تھے۔ وہ صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ کے علاقے اتمانزئی میں 1890 میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا انتقال 1988 میں ہوا۔ ان کی تدفین ان کی وصیت کے مطابق افغانستان کے شہر جلال آباد میں کی گئی۔

Tags

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close