بلاگ

حسن صد پارہ، کوہ پیمائی کا ستارہ ڈوبنے کو ہے

لیکن آج بستر مرگ پرانہیں سر گرائے آکسیجن ماسک پہنے دیکھا تو دل ہچکیاں بھرنے لگا،ایک سانس لینے میں وہ مشینوں کے محتاج ہوجائیں گے،کبھی سوچا نہ تھا،کہ ایسا جواں رعنامرد جس نے پہاڑوں کوسرکیا مگر خون کے کینسر میں مبتلا ہوکر اسقدر لاچار ہوجائے گا….سب کاتب تقدیر کا لکھا ہوا ہے جو چاہے تو میدان کے شاہسواروں کو بھی بستر پر لے آتا ہے۔
میں ایک ٹورسٹ ہوں اور میرے سفر کا ذریعہ دو پہیوں والی سواری موٹر سائیکل ہے۔ میں وطن عزیز کے گوشے گوشے میں سیاحتی سفر کرتا رہتا ہوں اور پاکستان کے عظیم اور نامور سیاحوں اور کوہ پیماﺅں سے مل چکا ہوں اور ان عظیم لوگوں سے ملنا اپنے لیے سعادت سمجھتا ہوں ۔ انہیں ہیروز میں حسن صد پارہ کا نام چمکتے ہوئے ستارے کی طرح ہے۔ جس کی کوہ پیمائیمیں خدمات قابل قدر ہیں۔ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں ان کی کوہ پیمائی کے ڈنکے بج رہے ہیں۔ وہ پاکستان کے واحد کوہ پیماہیں جنہیں تمغہ امتیاز سے نوازا گیا ہے۔
حسن صد پارہ کا تعلق سکردو سے ہے اور وہ سکردو کے نواح اور صد پارہ گاﺅں کے رہائشی ہےں۔ سکردو شہر میں صد پارہ مارکیٹ میں کوہ پیمائی سے متعلق ساز و سامان کی دکان کے مالک اور اپنے کام میںبالکل منفرد کوہ پیماہیں ….پاکستان کے اس نامور سپوت نے کوہ پیمائی میں انتہائی شاندار تاریخ رقم کی ہے ۔حسن صد پارہ نے کوہ عالم کی 6بلند ترین چوٹیاں بغیر آکسیجن سلنڈر کے سر کی ہیں اور اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ضروری سازو سامان کے ساتھ اپنا نام سنہرے الفاظ میں لکھوایا ہے۔
میں چونکہ خود سیاح ہوں اس وجہ سے مجھے اس بات میں دلچسپی ہوتی ہے کہ ایسے ہیروز کے کارنامے انہی کی زبانی سنوں۔ اسی سال اگست کے مہینے میں سیاحت کے لیے میرا سکردو جانا ہوا اور بطور خاص اس عظیم ہیرو سے ان کی دکان پر ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ نہایت سادہ طبیعت ، ملنسار اور اپنے پیشے سے پیار کرنے والے حسن صد پارہ نہایت اپنائیت اور محبت سے ملے۔ انہی کی زبانی ان کی کوہ پیمائی کی باتیں سن کر دل میں ان کی محبت اور عزت میں اور اضافہ ہوگیا۔ دوران نشست حسن صد پارہ سے سوال کیا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے نہایت سادہ انداز میں بتایا کہ انہوں نے اب تک دنیا کی 6بلند ترین چوٹیاں سر کی ہیں جن میں ماﺅنٹ ایورسٹ(8848میٹر)، K2 (8611میٹر)، نانگا پربت (8126میٹر)، G.I (8086میٹر) ، براڈ پیک (8047میٹر)، G.2 (8035 میٹر) شامل ہیں۔ انہوں نے اپنی بات بڑھاتے ہوئے بہت ہی حیران کی انکشاف کیا کہ وہ دنیا کے واحد کوہ پیما ہیں جنہوں نے دنیا کی سب سے بلند ترین چوٹی مونٹ ایورسٹ کو صرف4دن میں سر کیا ہے۔ کوہ پیمائی کی دنیا میں یہ ایک کارنامہ ہے۔ اسی طرح انہوں نے اپنی بقیہ مہمات کو بھی نہایت سادگی کے ساتھ بیان کیا۔ انہوں نے اپنی مہمات کو صرف اپنے نام کے ساتھ نہیں جوڑا بلکہ انہوں نے اپنی ہر مہم کے ساتھ لفظ پاکستان کا استعمال بڑی خوبصورتی سے کیا۔ پاکستان سے ان کی محبت دیکھ کر دل عشق عشق کر اٹھتا ہے۔ اسی دوران انہوں نے سیاحتی اداروں سے متعلق کچھ مسائل کا بھی ذکر کیا جس کا سامنا تقریباً ہر شخص کو ہی کرنا پڑتا ہے اور ان کے مسائل کو حکومتی ایوانوں تک پہنچانے کے لیے بڑی موثر قسم کی مہم کی ضرورت ہے۔
دوستو! آج ہمارا یہ ہیرو زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے ۔بلڈ کینسر نے اس عظیم آدمی کو دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے۔ گزشتہ دن میں بطور خاص ان کی تیمارداری کے لیے راولپنڈی CMHگیا ۔کافی تگ و دو کے بعد ان سے کچھ منٹ کی ملاقات کا موقع دیا گیا۔ آج میرے سامنے وہ زندہ دل ہنسنے مسکرانے والا شخص جو اپنوں اور غیروں میں یکساں مقبول ہے بے بسی کے عالم میں بستر پر دراز تھا۔ جس شخص نے پوری زندگی بلند ترین چوٹیوں کو اپنے پاﺅں کے نیچے روند ڈالاآج وہ ہسپتال کی چند سیڑھیاں چڑھانے سے قاصر تھا۔ وقت کی ستم ظریفی دیکھ کر آنکھوں سے آنسو امڈ آئے ۔میں اپنی دل گرفتگی کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ حسنصد پارہ کے بڑے بیٹے سے کافی دیر بات ہوتی رہی اور میں انہیں دلاسہ اور حوصلہ دیتا رہا۔ دوران بات چیت میں یہ بات بری طرح محسوس کی ان کے لواحقین اپنے دامن کو خالی ہوتا ہوا دیکھ رہے تھے۔ ڈاکٹروں نے کسی حد تک نا امیدی ظاہر کر دی تھی ۔مجھے یہ باتیں سنتے ہوئے یہ احساس کھائے جا رہا تھا کہ پاکستان کا نام روشن کرنے والا یہ ستارہ غروب ہونے جا رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ حسن صد پارہ کو صحت کا ملا عطا ءفرمائے۔ میں اب بھی پُر امید ہوں کہ اگلے سال میں جب سکردو جاﺅں تو حسن صد پارہ کو اپنی دکان پر ہنستا مسکراتا ہوا دیکھوں ۔ اور ان کے ساتھ چائے کی پیالیپر چھوٹی چھوٹی چسکیاں لیتے ہوئے ان کی زبانی کینسر کو مات دینے کی داستان سنوں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close