پروین شاکر کا64واں یوم پیدائش آج منایا جارہا ہے
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
اردو شاعری کو اک نئی طرز بخشنے والی عظیم شاعرہ پروین شاکر چو بیس نومبر انیس سو باون کو کراچی میں پیدا ہوئیں، پروین شاکر نے جامعہ کراچی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
پروین ایک ہونہار طالبہ تھیں۔ دورانِ تعلیم وہ اردو مباحثوں میں حصہ لیتیں رہیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں، وہ استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کرلی۔
منفرد لہجہ اور ندرت خیال کے باعث جلد ہی شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئیں، الفاظ و جذبات کو انوکھے اندازمیں سمو کر سادہ الفاظ بیان کا ہنر انکا خاصہ تھا ، انہوں نے روایات سے انکار اور بغاوت کرتے ہوئے صنف نازک کے جذبات کی تصویریں بنائیں اوردکھوں اور کرب کو الفاظ کے سانچے میں ڈھال کر اشعار کہے۔
انہوں نے سچ ہی کہا تھا کہ
مر بھی جاؤں تو کہاں، لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے
پروین شاکر کی منفرد کتاب خوشبو منظر عام پر آئی تو شاعرہ کے الفاظ کی مہک چارسو پھیل گئی۔
اپنی منفرد شاعری کی کتاب ’’خوشبو‘‘ سے اندرون و بیرون ملک بے پناہ مقبولیت حاصل کی، انہیں اس کتاب پر آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ بعد ازاں انہیں پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ بھی ملا۔
پروین شاکر کی تصانیف صد برگ، انکار، مسکراہٹ، چڑیوں کی چہکاراور کف آئینہ، ماہ تمام، بارش کی کن من بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی، الفاظ کا انتخاب اور لہجے کی شگفتگی نے پروین شاکر کو مقبول عام شاعرہ بنادیا۔
پروین شاکر کو اگر اردو کے صاحب اسلوب شاعروں میں شمار کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ انہوں نے اردو شاعری کو ایک نیا لب و لہجہ دیا اور شاعری کو نسائی احساسات سے مالا مال کیا۔ ان کا یہی اسلوب ان کی پہچان بن گیا۔ آج بھی وہ اردو کی مقبول ترین شاعرہ تسلیم کی جاتی ہیں۔
ابھی فن وادب کے متوالے پو ری طرح سیراب بھی نہ ہو پائے تھے کہ انیس سو چورانوے میں خوشبو بکھیرنے والی پروین شاکر ٹریفک حادثے میں دنیا سے رخصت ہوگئیں۔
وہ تو جاں لے کے بھی ویسا ہی سبک نام رہا
عشق کے باب میں سب جرم ہمارے نکلے