ہماری زندگی سے آہستہ آہستہ غائب ہونے والی چیزیں
لیکن وقت جہاں ہمارے لیے کئی سہولیات لے کر آیا ہے، وہیں اس نے ہمیں کئی چیزوں سے محروم بھی کردیا ہے۔ شاید آپ نے کبھی غور نہ کیا ہو لیکن ہماری زندگی سے بہت سی چیزیں آہستہ آہستہ غائب ہو رہی ہیں اور بہت جلد یہ مکمل طور پر ختم ہوجائیں گی۔
آئیے دیکھتے ہیں ہم کن چیزوں سے محروم ہورہے ہیں۔
اندھیرا آسمان
آپ یاد کریں کہ آپ نے آسمان کی اصل رنگت کو آخری بار کب دیکھا تھا؟ یقیناً آپ کو یاد نہیں ہوگا۔ تیز رفتار ٹیکنالوجی کی بدولت روشنیاں ہماری زندگیوں میں اس قدر حاوی ہوچکی ہیں کہ یہ ہماری رات کو بھی دن بنا دیتی ہیں۔
ہم اب بھول گئے ہیں کہ آسمان کے رنگ کیسے ہوتے ہیں، خصوصاً رات کو تاروں کا چمکنا، یا اندھیری راتوں میں آسمان کا نظارہ کیسا ہوتا ہے۔
چابیاں
اگر آپ پرانے پاکستانی اور بھارتی ڈرامے دیکھیں تو اس میں آپ کو چابیاں نہایت اہم نظر آئیں گی۔ گھر میں بڑی بہو کی آمد کے ساتھ چابیاں اس کے سپرد کردینا ایک پرانی روایت تھی جو اس بات کو ظاہر کرتی تھی کہ اب گھر بہو کے حوالے ہے۔
لیکن نئے دور کے ساتھ نہ صرف یہ روایت بلکہ ہر قسم کی چابیاں ہی ختم ہورہی ہیں۔ جدید دور میں ایک طرف تو سماجی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہنے کا رواج، خاندان کے مختلف جوڑوں کا الگ الگ گھروں میں رہنا، اور ذاتی زندگی میں کسی کی مداخلت برداشت نہ کرنے کا رجحان ہماری نانی دادی کے زمانے کی بہت سی روایات کو ختم کرچکا ہے۔
دوسری طرف اب الماریوں، تجوریوں، اور گاڑیوں کی چابیوں کا استعمال بھی ختم ہونے جارہا ہے اور ان کی جگہ آٹو میٹک لاکس اور اسمارٹ آلات نے لے لی ہے۔
کتاب
آج کل مطالعہ کا رجحان تو ویسے بھی کم ہوگیا ہے لیکن بہت جلد اس کا طریقہ بھی تبدیل ہوجائے گا۔ اگلے چند سال میں ہم اور ہمارے بچے روایتی کتاب کے بجائے اسمارٹ اسکرین پر مطالعہ کریں گے۔
ڈاکخانہ
پاکستان میں محکمہ ڈاک ایک عرصہ سے زبوں حالی کا شکار ہے اور ایک طویل عرصہ قبل ہی ہم اس کا استعمال چھوڑ چکے ہیں۔ رابطوں کے لیے خطوط بھیجنا اب قصہ ماضی بن چکا ہے اور اسمارٹ فونز کی بدولت ہم دنیا کے کسی بھی حصہ میں بیٹھے اپنے کسی پیارے سے کسی بھی وقت رابطہ کر سکتے ہیں۔
اس محکمہ کو بھی بہت جلد باقاعدہ طور پر ختم کردیا جائے گا کیونکہ اس کی جگہ رابطوں کے آسان ذرائع یعنی موبائل اور اسمارٹ فون کے ذریعہ ویڈیو کالنگ، وائس کالنگ، میسجنگ اور ای میلنگ وغیرہ لے لیں گی۔
زرد بلب
ہمارے گھروں میں جلتے زرد بلب ایک زمانے میں اردو ادب کا بھی حصہ تھے جو عموماً اداسی اور تنہائی کی نشاندہی کرتے تھے۔ تاہم اس کا استعمال بھی بہت کم ہوچکا ہے۔
اس کی ایک وجہ تو ان بلبوں کا بجلی کا زیادہ خرچ کرنا ہے۔ ایک زرد بلب 40 سے 100 میگا واٹ بجلی خرچ کرتا ہے جو توانائی اور پیسے دونوں کا ضیاع ہے۔
ان بلبوں کی جگہ اب زیادہ روشنی مگر کم بجلی خرچ کرنے والی روشنیوں کو فروغ دیا جارہا ہے۔ اب ہمارے گھروں میں بھی 90 فیصد یہی ایل ای ڈی اور کم توانائی والی روشنیاں استعمال کی جاتی ہیں۔
کلچ پیڈل
جدید دور میں گاڑی کا ہر نیا ماڈل پہلے سے زیادہ جدید اور آٹو میٹک ہوتا جارہا ہے۔ گاڑی میں کلچ اور پیڈل بہت جلد ایک گم گشتہ شے بن جائیں گے اور شاید ہمارے بچے کبھی اس دقت اور مشقت سے آشنا نہ ہوسکیں جو گاڑی چلانا سیکھنے اور گاڑی چلانے میں اٹھانی پڑتی ہے۔
تخلیہ
جیسے جیسے وقت آگے بڑھتا جائے گا، لوگوں کی پرائیوسی بھی ختم ہوتی جائے گی۔ جا بجا لگے کیمرے، خفیہ اور کھلے عام کی جانے والی نگرانی کے مختلف نظام اور خود ہمارا سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر زندگی کے ہر مرحلے کو شیئر کرنا تخلیے یا پرائیوسی کو ایک خواب و خیال بنا دے گا۔